Friday 10 February 2012

ساحر لدھیانوی





ساحر لدھیانوی





قلمی نام

ساحر لدھیانوی

نام

عبد الحئ


شاعر

لدھیانہ , بھارت

پیدائش

1921-03-08   لدھیانہ - بھارت

وفات

1980-10-25   ممبئی - بھارت


لنک

www.youtube.com/watch?v=HzHaNAldLjo&feature=related

لنک

www.en.wikipedia.org/wiki/Sahir_Ludhianvi



ممبر

 انجمن ترقی پسند مصنفین


ساحر لدھیانوی کی تصنیفات

تانیا (س ن - 46 صفحات) مکتبۂ اُردو. لاہور (ترجمہ)

میں پل دو پل کا شاعر ہوں 

آؤ کہ خواب بنیں (1981ء-120 صفحات) ناشر:اسٹار پبلی کیشنز. نئی دہلی 

گاتا جائے بنجارا

پرچھائیاں

تلخیاں (طبع ششم1949ء)حالی پبلشنگ ہاؤس،دہلی(شاعری)

کلیات ِ ساحر: ناشر:رابعہ بک ہاؤس،لاہور



 ساحر لدھیانوی پر لکھے گئے مقالات

 مقالات پی ایچ ڈی

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر ضیاء الدین نگران ڈاکٹر محمد مطیع الرحمٰن، للت نرائن متھلا یونیورسٹی. دربھنگا، 1989ء

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر آنسہ پروین نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاَں. دین دیال اپادھیاے یونیورسٹی. گورکھپور، 1999ء

== ساحر لدھیانوی اور معاصر شعراء - ایک جائزہ، ڈاکٹر عبدالرؤف شاد نگران ڈاکٹر یونس غازی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی. میرٹھ ، 2003ء


مقالات ایم فل

== ساحر: شخص اور شاعر، انور ظہیر نگران ڈاکٹر اسلم پرویزجواہرلعل نہرو یونیورسٹی. دہلی، 1988ء

؎کتابیات (تذکرے، تاریخ، تنقید و وفیات)

== سُرورِ رفتہ، امیر چند بہار، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری. پٹنہ، 1998ء صفحہ 257

== نکہتِ اُردو، پروفیسر درخشاں کاشف، قمر کتاب گھر. کراچی، 2004ء صفحہ 255

== جامعات میں اُردو تحقیق، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ہائر ایجوکیشن کمیشن. اسلام آباد ،2008ء صفحہ 156


رسائل

کتابیات (ساحر شناسی)

== ساحر لدھیانوی: ایک مطالعہ، مخمور سعیدی






کلام

کبھی کبھی



کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گذرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدّر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن ، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسیں فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں،ترا غم،تیری جستجو بھی نہیں
گذر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دُکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گذر رہا ہوں کچھ انجانی رہگذاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پُر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مرے  ہم نفس ، مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے



ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



غزل


محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو،زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

اُنہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے

بس اب تو دامن ِ دل چھوڑ دو بے کار امیدو

بہت دکھ سہہ لئے میں نے بہت دن جی لیا میں نے



ٌ


No comments:

Post a Comment