Thursday 22 March 2012

فیض احمدفیض : تلخی امروزاورشیرینی فردا کا شاعر







فیض احمدفیض



                  تلخی امروزاورشیرینی فرداکاشاعر 
                    
غلام نبی خیال





فیض احمدفیض کی داستانِ زندگی کُلفتوں اورراحتوں کی کہانی ہے جس میں بالآخرصدیوں سے بہتی ہوئی نورکی ایک بوندہرشب تارکوماہ تمام کی سیمیں روشنی سے منورکرلیتی ہے اورحسن وصداقت کایہ نُورسالہاسال کااحاطہ کرتاہواانسان کی نیک قدروں اوردانش کے جلال جمال کونئی جلوہ باری سے روشن کرلیتاہے۔
فیض کاغم اُس کااپناغم نہیں، یہ غم ایرانی طلباءکے خون کاغم ہے، فلسطین کی محکومی کاقلق ہے اورافریقہ کے غلاموں کی اذیتوں کادرداورانقلابِ روس کارجزبھی ہے:


آجامیں نے سُن لی تیرے ڈھول کی ترنگ
آجامست ہوگئی میرے لہوکی تال
آجاایفریقا

آجامیں نے دھول سے ماتھااُٹھالیا
آجامیں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجامیں نے دردسے بازوچھڑالیا
آجامیں نے نوچ دیابے کسی کاجال
آجاایفریقا


فیض احمدفیض کرب کاشیدائی ہے جوحُسنِ ماہ سے دل کوجلاتاہے ۔ فیض نے زندان کوآہنی زنجیروں سے تلواریں نہیں بلکہ قلم کی نوکیں تراش لیں اوراس کایہ بے ضررمگربااثرہتھیاربرصغیرکی اُردوشاعری کے مزاج میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کاباعث بن گیا:


دیکھ کرآہنگرکی دُکاں سے
تندہیں شعلے سُرخ ہے آہن
کھلنے لگے قُفلوں کے دہانے
پھیلاہراک زنجیرکادامن
بول یہ تھوڑاوقت بہت ہے
جسم وزبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جوکچھ کہناہے کہہ لے


کسی شاعریادانشورکواگرجیل جانے کااِتفاق ہوااوراگراُسے زنداں میں اُن دوسرے قلم کاروں، شاعروں یاادیبوں کی نگارشات کامطالعہ کرنے کابھی موقعہ نصیب ہواجوبجائے خودقیدخانوں ہی میں تخلیق کی گئی ہوں تواس تجربے کاعالمِ احساس ہی عجیب وغریب ہوتاہے۔ جہاں آپ نے کسی کے زنداں نامہ میں دردِ دل یاغم جہاں کانوحہ پڑھ لیاوہاں آپ کویہ اپنی ہی زندگی کاحال دکھائی دیا۔ زندانی تخلیقات میں کسی اورقیدی کے خیالات میں استبدادا ور وقتی جبرکے بوجھ تلے ایک آزادفضاکی صبح کی طلوع کی بشارت دی گئی ہوتویہ سارامنظرنامہ آپ کواپنی ہی پابہ جولاں زندگی کی کہانی کاآئینہ دارنظرآتاہے ۔
میں خوداس تجربے کے انوکھے دورسے گذرچکاہوں اوریہی وجہ ہے کہ فیض کے ساتھ ساتھ میں جواہرلال نہرو، مولاناآزاد، سجادظہیر، ناظم حکمت جولیس فیوچک کے علاوہ ذولفقارعلی بھٹو اورسب سے بڑھ چڑھ کراپنے آپ کوفیض کاہم نواتصورکرتاہوں۔


محبت اتفاق ہے کہ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب فیض احمدفیض ، سجادظہیراوراُن کے کئی احباب کوراولپنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے قیدخانے میں ڈال دیاگیا۔ کشمیرمیں بھی کشمیرسازش کیس میں ماخوذکرکے مجھے دوسال تک قیدوبندمیں رکھاگیا۔ اس دوران میں نے اُن برگزیدہ اصحابِ دانش وقلم کی زندانی تخلیقات کابھرپوراورپُرشوق مطالعہ کیاجن کااوپرذکرہواہے ۔


نہرواورآزادتوکئی سال تک تحریک آزادی ہندکے دوران جیل خانوں میں اپنے ہی وطن میں قیدیوں کی زندگی گذارنے پرمجبورکئے گئے ، ناظم حکمت کوتُرکی سے بالآخراسی نوع کاالم ناک دوردیکھنے کے بعدروس جلاوطن ہوناپڑااورچیکوسلوواکیہ کے جولیس فیوچک کوعالمِ شباب میں ہی نازی عدالت نے برلن میں 25 اگست 1943 ءکوپھانسی کی سزاسنائی تھی جسے صرف تیرہ دن بعدعمل میں لایاگیا۔


تختہ دارپرچڑھائے جانے سے قبل جولیس فیوچک نے موت کے فرشتے کواپنی آنکھوں کے سامنے رقصاں دیکھ کرزندگی سے اپنی بے پناہ چاہت کوامربنانے کے لئے یہ الفاظ رقم کرلئے :”مجھے زندگی سے محبت تھی اوراسی کے حسُن نے مجھے مرنے کے لیے میدان میں بھیج دیا۔ انسانو! مجھے تم سے محبت تھی اورمیں خوش ہوتاتھاجب تم میری محبت کاجواب محبت سے دیتے تھے ۔ جب بھی تم نے مجھے غلط سمجھاتومجھے تکلیف ہوئی۔ تم میں سے جسے بھی میں نے تکلیف پہنچائی مجھے معاف کرواورمجھے چاہنے والو! مجھے بھول جا۔یاس وغم کوکبھی غم کے ساتھ وابستہ نہ کرنا۔ میری ماں اورباپ اوربہنواورتم میری آگسٹینااورمیرے تمام ساتھیوجنھیں میں نے ہمیشہ رفیق رکھا۔ تم سے میری یہ آخری وصیت ہے۔ اگرتمہاراخیال ہے کہ آنسوغم کے میل کودھولیں گے توچندلمحے بیٹھ کررولینالیکن دل کوملول نہ کرنا۔ میں مسرت اورشادمانی کے لئے زندہ رہااورمیں مسّرت اورشادمانی ہی کے لئے جان بھی دے رہاہوں۔ اسی لئے میری قبرپرغم ویاس کابُت نصب کرکے میرے ساتھ ناانصافی نہ کرنا“۔


جیولیس فیوچک کایہ اقتباس یہاں پراس لحاظ سے برمحل اورحسب حال ہے کہ فیض قیدوبندکے دنوں میں جن دومغربی ترقی پسندادیبوں سے سب سے زیادہ متاثرہوااُن میں ناظم حکمت اورفیوچک شامل ہیں۔فیض نے حکمت کے کلام اورفیوچک کے ”پھانسی کے سائے میں“ سے کئی جگہ استفادہ بھی کیاہے اوراُن کی منظومات میں بارباران دونوں کے خیالات اورحیات پرورمحسوسات کی جھلک واضح طورپردکھائی دیتی ہے ۔


سری نگرکے سنٹرل جیل میں ہی مجھے بھی فیض کامطالعہ کرنے کاموقعہ ملا اوراس طرح سے میرے اولین مجموعہ کلام ”سازِ زنجیر“ میں فیض کااثراورفیضانِ سخن واضح طورپرجلوہ آراہے۔ اسی دوران میں نے فیض کے اس عدیم المثال شہہ پارے کاکشمیری ترجمہ بھی کیاجسے میں فیض کی زندانی شاعری کادُرِ بیش بہاسمجھتارہا :

ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے
دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
قیدخانوں کی تہہ میں اُتارے گئے
ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

فیض نے یہ نظم جیولس روزنبرگ اورایتھل امریکی جوڑے کوروس کے لئے جاسوسی کرنے کی پاداش میں 1953 میں امریکی سرکارنے موت کی سزادے کران دونوں کوبرقیاتی کرسی پربٹھاکران کاکام تمام کردیا۔ ہینڈی سازش کیں۔ داد ،فیض اورکارظہرکوموت کی سزافیض نے اسی پس منظرمیں  :

مقام فیض کوئی راہ میں جچاہی نہیں
جوکوئے یارسے نکلے توسوئے دارچلے

فیض کے ایک انگریزمُترجم پروفیسروی جی کیرنن کابھی یہی خیال ہے کہ ”فیض کی بہترین شاعری وہی ہے جواُس نے قیدخانوں میں تخلیق کی ہے


فیض ہربدصورتی میںخوبصورتی کی تلاش کرتاتھا۔ اس کی نظروں میں اگرسڑکوں اورگلی کوچوں میں پڑے ہوئے کتے بھی دوسروں کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کوایک دوسرے سے چھیننے اورخواب خرگوش سے بیدارہونے کاعزم کریں تووہ دُنیاکوتبدیل کرسکتے ہیں اورآقاں کی ہڈیاں چباسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی اُن کی سوئی ہوئی دُم ہلادے۔


جستجوئے حسن اورتلاش جمال کے اس شوق اورلگن کے بارے میں فیض خودکہتاہے ۔”مجھے یادہے کہ ہم لاہورمیں مستی دروازے کے اندررہتے تھے ۔ ہماراگھربالائی سطح پرتھا۔ نیچے بدروبہتی تھی ۔ چھوٹاساایک چمن بھی تھا۔ چارطرف باغات تھے۔ ایک رات چاندنکلاہواتھا، چاندنی بدرواوراردگردکے کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپرپڑرہی تھی۔ چاندنی اورسائے یہ سب مل کرکچھ عجیب پراسرارمنظربن گئے تھے۔ چاندکی عنایت سے منظرکی بدوضعی چھپ گئی تھی اورکچھ عجیب ہی قسم کاحسن پیداہوگیاتھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ ایک آدھ نظم میں منظرکشی کی ہے ۔ جب شہرکی گلیوں، محلوں اورکٹڑیوں میں کبھی دوپہرکے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کاروپ آجاتاہے جیسے معلوم ہوکوئی پرستان ہو۔

صلیبیں میرے دریچے میں“میں فیض نے اسی حسنِ خیال اوردُنیائے حسن وجمال کے خوش آئندپہلوں کایوں تذکرہ کیاہے۔


”ایسے لمحے بھی آتے ہیں کہ کوئی ننھاسابیج بوجھل مٹی بہت سلیقے سے ہٹاکرایک ننھی سے کونپل زمین سے برآمدکرتاہے اوراسے دیکھ کردل بے پناہ اورقابل بیان مسرت سے لبریزہوجاتاہے اورتمام وقت دل جانتاہے کہ اسی سبزننھی کونپل کے ہاتھوں میں حقیقت بھی ہے اورابدیت بھی۔ جیل کی دیواریں اورپہریداراوروردیاں سب جھوٹ ہیں سب غیرحقیقی ہیں۔ اسی صورت سے دل یہ بھی جانتاہے کہ ہم میں سے ہرایک لحدمیں سوجانے کے بعدبھی جینے والوں کی ملکیت اوراُن کے رنج وراحت میں دخیل رہتاہے ۔ جیل میں محرومیاں بہت ہیں لیکن جینے اورہنسنے اورپیارکرنے کے اسباب میں یہاں بھی کمی نہیں ہوتی“۔


فیض تابناک اُمید۔ روشن مستقبل اورانسان کی ابدیت اوراُس کی عظیم انسانی اقدارکاایک مجسم تھا۔ اس پس منظرمیں جب وہ جیل خانے میں بھی تھاتووہ اسی ابدی اُمیدکے نغمے ایک مخمورگویےّ کی طرح گاتاتھا :


ہم اہلِ قفس تنہابھی نہیں ہرروزنسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطرآتی ہے اشکوں سے منّورجاتی ہے


فیض کی تہلکہ مچانے والی شاعری کاسُروراُس کے ہم عصروں کے دل ودماغ کوبھی اپنے قابومیں کرچکاتھا۔اُس کے ایک روسی مداح اورتجزیہ نگارالیکزینڈرسرکوف نے یہ واقعہ بیان کیاہے کہ ایک بارپرانی دہلی میں ایک مشاعرہ ہورہاتھا۔ جب مشاعرہ اختتام کوپہنچنے کوتھاکہ علی سردارجعفری مایک پرآکرفیض کے اشعارکی ادائیگی اوراس جیسے طرح دارآوازکے مالک کی زبانی۔ محفل پرگویاجادوطاری ہوا۔ ایسالگاکہ فیض اس مجلس میں موجودتھا۔ سرداراس ادائیگی میں اس قدرکھوگیاکہ وہ اپناکلام سُنانابھول ہی گیا“۔


فیض آنے والے کل کے تناظرکوبھی اپنی دُوربین نگاہوں سے دیکھ کردُنیامیں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرنے والاایک منفردفن کارتھا۔ بیسویں صدی میں جہاں اس نے ایران، چین ، سنکیانگ ، افریقہ کی کشتہ سرزمین اورعوام کے سوختہ دلوں کی دھڑکنوں کواپنے احساس کے کان لگاکرپوری طرح سُن لیاوہاں اُس کے لاشعورمیں اُن اقوام میں اُس وقت آزادہوئے ممالک میں استعماریت اورشخصی حکومتوں کے ناقابل برداشت اورعفونت زدہ تسلسل کے اختتام کابھی ایک اندازہ تھا۔ یہ صورت ِحال مصر، لیبیا، بحرین ، تیونس اورچین میں آج شعلہ بدامان ہے ۔


جولیس اوزبزگ اوراُس کی اہلیہ ایتھل دونوں امریکی اشتراکی تھے جنھیں 1953ءمیں امریکہ نے پھانسی کی سزادی ۔ یہ سزاانہیں اس لئے دی گئی کہ وہ مبینہ طورپردورانِ جنگ جاسوسی کی سازش میں ملوث تھے۔ ان الزاما ت میں ایٹم بم سے متعلق جانکاری سوویت یونین کودیناشامل تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلاواقعہ ہے جب عام شہریوں کوسزائے موت دی گئی ہو۔ اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس ضمن میں کئی ایسی دیگرشخصیات کوبیمہانہ طورپرزیرعتاب لایاجن کے نام کاایک حصہ روزن برگ تھا۔ جولیس ایک برقیاتی انجینئرتھااورایتھل ایک اداکارہ اورگلوکارہ تھی۔ ان دونوں کے خلاف مقدمہ اگست 1950ءمیں ہوا۔ مارچ 1951ءمیں اس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ 19 جون 1953ءکوبالآخران دونوں کوبرقیاتی کرس پربٹھاکربجلی کے جھٹکوں سے ان کی جان نکالی گئی۔


نہ مدعّی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھارزقِ خاک ہوا


زنداں نامہ کے آغازمیں سابق میجرمحمداسحاق رودادِ قفس کے عنوان کے اس واقعہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتاہے کہ ”ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے“ ۔ روزن برگ جوڑے کی بے مثال قربانی سے مُتاثرہوکرلکھی گئی ہے جومرتے دم تک انسانیت کے مستقبل ، انقلابات ماتحت یاان سب کے ساتھ اپنی وفاداری جتلاتے رہے ۔ فیض کی اس نظم کی آفاقیت عجیب وغریب ہے۔ انہوں نے صدیوں کوپاٹ کرہرزمانے اورہزاروں میل کی مسافت طے کرکے ہرملک کے شہیدوں کوایک صف میں کھڑاکردیاہے۔ یہ نظم کربلا، پلاس، سرنگاپٹنم ، جھانسی، جلیانوالہ ، قصّہ خوانی ، سٹالن گرا، ملایا، کینا، کوریا، تلنگانہ، مراقش ، تیونس سبھی سے متعلق معلوم ہوتی ہے اورتہران ، کراچی اورڈھاکہ کی سرماکوں پردم توڑتے طلباء، مراقش، تیونس ، کینیااورملایاکے خون میں لت پت سب ایک ہی جاں فروزنعرہ دوہراتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم
اپناغم تھاگواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

جن شاعروں کے خیالات پرالہام کاورودہووہ آنے والے ادوارکے بارے میں تصوراتی طورپراُن کوائف کی جھلک واضح طورپردیکھتے ہیں جواقوام اورممالک کی تاریخ سازتبدیلیوں کاپیش خیمہ بن جاتی ہیں۔ ایک اورممتازترقی پسندشاعرمخدوم محی الدین نے پچاس سال قبل تلنگانہ کی تحریک کواپنے اشعارسے حرارت بخشی تھی اورآج یہ تحریک ایک ملک گیرموضوع کادرجہ حاصل کرچکی ہے۔

مشرق وسطیٰ اورافریقہ میں اس وقت جوانقلاب آفریں اورہنگامہ خیزواقعات رونماہورہے ہیں ان کی صدائے بازگشت فیض کی ان منظومات میں آج سنائی دیتی ہے جواس نے گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں تخلیق کیں۔ اس قبیل کی فیض رجزخوانی ایک پیغمبرانہ پیش گوئی کی طرح اس زودحس اوردوربین سخنورکی معاملہ فہمی اورسیاسیات عالم پراس کی گہری نظرکاماحصل ہے جب وہ کہتاہے:


اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیرنہیں
جودریاجھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلوبڑھتے بھی چلوبازوبھی بہت ہیں سربھی بہت
چلتے بھی چلوکہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
اے خاک نشینواُٹھ بیٹھووہ وقت قریب آپہنچاہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے۔


فیض کی شاعری جب بھی زیرمطالعہ آتی ہے یاسُنائی جاتی ہے توحافظ شیرازی کایہ شعربے ساختہ زبان پرآجاتاہے :

نفسِ بادِمبامشک فشاں خواہدشد
عالمِ پیردگرب ارہ جواں خواہدشد


یہ مضموٗن     http://urdualive.com  سے ماخوٗذ ہے۔

*********

Tuesday 14 February 2012

تمہارا نام لکھا ہے







تمہارا نام لکھا ہے

فرید قمر




تمہارا نام لکھا ہے

اجالوں سے اندھیروں تک

درختوں پر

درختوں کی ہری شاخوں سے

شاخوں کے ہرے پتوں سے لے کر

پرندوں کے بسیروں تک

تمہارا نام لکھا ہے

کبھی سورج کی کرنوں پر

بہاروں پر

نظاروں ، ریگزاروں پر

ستاروں پر

پہاڑوں، آبشاروں پر

تمہارا نام لکھا ہے


***************

Sunday 12 February 2012

ترقی پسند تنقید







ترقی پسند تنقید



ترقی پسند تحریک کی تنقیدمیں  شروع میں اتنہا پسندی کا رجحان زیادہ تھا ۔ اس انتہا پسندی کے جوش میں انھوں نے میرتقی میر سے لے کر غالب تک بعض اچھے شعراءکو صرف اس جرم کی پاداش میں یکسر قلم زد کر دیا کہ انہوں نے طبقاتی کشمکش میں کسی طرح کا کردار ادا نہیں کیا۔اکبر الہ آ بادی ، حالی ، سرسید ، اقبال وغیرہ ان کے لیے ناقابلِ قبول قرار پائے ۔لیکن اس ابتدائی جارحیت کے بعد مجنوں گورگھپوری ، احتشام حسین ، عزیز احمد اور دیگر سلجھے ہوئے ناقدین نے اشتراکیت کے بارے میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے عصری ادب میں نئی جہات دریافت کیں ۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کے شعراءپر نئے زاوےے سے روشنی ڈال کر ان کی عظمت میں اضافہ کیا۔
انھوں نے پہلی مرتبہ مارکسی تنقید کی ابتداءکی ۔ اس سلسلے میں جدلیاتی ، مادیت ، طبقاتی کشمکش اور انقلاب کو سامنے رکھ کر ادب کے مسائل پر غور کیا گیا۔ذیل میں ہم فرداً فرداً ان نقادوں کی تنقید کا جائزہ لیں گے۔



ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری


ترقی پسند تنقید میں پہلا اور اہم نام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا ہے۔ مقالہ ”ادب اور زندگی “ جو اختر حسین رائے پوری نے 1935ءمیں لکھا اُسے مارکسی تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ اختر حسین رائے پوری کا خیال ہے کہ ادب اور انسانیت کے مقاصد ایک ہیں ۔ ادب زندگی کا ایک شعبہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مادی سرزمین میں جذبات ِ انسانی کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے روح القدس بننے اور عرش پر جا کر بیٹھنے کا دعویٰ کرے ۔ ادب کا مقصد یہ ہونا چاہےے کہ وہ ان جذبات کی ترجمانی کرے جو دنیا کو ترقی کی راہ دکھائیں اور ان جذبات پر نفرین کرے جو دنیا کو آگے بڑھنے نہیں دیتے ۔وہ لکھتے ہیں: ” ادب کا فرضِ اولین یہ ہے کہ دنیا سے ، قوم ، وطن ، رنگ ، نسل اور طبقہ مذہب کی تفریق کو متانے کی تلقین کرے اور اس جماعت کا ترجمان ہو جو نصب العین کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کر رہی ہے۔
وہ مارکسی تنقید کے اولین نقاد ہیں اور بہت کم لکھنے کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت برقرار ہے۔



سید سجاد ظہیر



سجاد ظہیر ترقی پسند تنقید ی تحریک کے بانیوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کو نظریاتی اساس مہیا کی اور پھر عمدہ وکالت سے اس تحریک کی سب سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ تنقید کے موضوع پر انہوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی۔ لیکن ان کی کتاب ”روشنائی “ ترقی پسند تحریک کی تاریخ بھی ہے اور کسی حد تک تنقید بھی ہے۔ سجاد ظہیر اردو کے پہلے نقاد ہیں جن کے مضامین مارکسی تنقید کے آئینہ دار ہیں۔ سجاد ظہیر نے صرف چند مضامین لکھے ہیں ، بقول عبادت بریلوی ان مضامین میں ایسی گہرائی ہے جس نے تنقیدی اعتبار سے ان کو بہت اہم بنا دیاہے۔




ڈاکٹر عبدالحلیم


ڈاکٹر عبدالحلیم کا بھی وہی حال ہے جو سجاد ظہیر کا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سجاد ظہیر کی طرح صرف چند تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ اور ان مضامین میں مارکسی تنقید کا نظریہ پوری طرح پیش کیاہے۔ اس سلسلے میں ان کے مضامین ”ادبی تنقید کے بنیادی اصول“ اور ”اردو ادب کے رجحانات“ قابلِ ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ مارکسی تنقید کی عملی شکل کے نمونے ان کے مضامین ” اردو ادب کے رجحانات “ اور ”ترقی پسند ادب کے بارے میں چند غلطیاں “ میں ملتے ہیں۔



مجنوں گورکھپوری



مجنوں گورکھپوری کی تنقید نے رومانیت سے مارکسیت کی طرف آہستگی سے سفر کیا ، کیونکہ ابتداءمیں ان کے یہاں ایک عرصے تک تاثراتی تنقید کا انداز غالب رہا ۔ مجنوں کی اتبدائی تنقید تحریریں جو ”تنقید حاشےے “ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں، تاثراتی تنقید کا انداز نمایاں ہے۔
بعد میں ان میں مارکسی تنقید کے اثرات غالب نظرآتے ہیں اور یہ ترقی پسند تحریک کا اثر ہے۔ چنانچہ ان کے دوسرے مجموعہ مضامین ” ادب اور زندگی “ ، ”مبادیاتِ تنقید “ زندگی اور ادب کا بحرانی دور“ اور ”ادب اور ترقی “ میں انہوں نے اپنے قائم کردہ تنقید نظریات کی روشنی میں عملی تنقید کی ہے۔ وہ بھی دوسر ے ترقی پسند نقادوں کی طرح ادب کو زندگی کی کشمکش کا رجحان سمجھتے ہیں۔لیکن مارکسی ہونے کے باوجود اُن کے ہاں ایک توازن کی کیفیت ملتی ہے اور اتنہا پسندی اُن کے ہاں پیدا نہیں ہوتی۔



سید احتشام حسین



مارکسی نقادوں میں سید احتشام حسین سب سے موقر ، معتبر اور معتدل نقاد تھے۔ انہوں نے نہ صرف مارکسی تنقید کو اساس بنایا بلکہ اسے زندگی کے طرز عمل کے طور پر قبول بھی کیا۔ تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ اوران کی تمام تر توجہ اسی فن کی طرف رہی ہے۔ سید احتشام حسین کے تنقید مضامین کے جو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان میں ”تنقید ی جائزے“ ”روایت اور بغاوت“ ”ادب اور سماج“ ” تنقید اور عملی تنقید “ ”ذوق ، ادب اور شعور “ ”افکار و مسائل “ اور ”عکس اور آئینے “ شامل ہیں۔
اُن کے ان مضامین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہو ں نے نہایت متنوع اور مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ انہوں نے تنقید ی نظریات و اصول کے علاوہ شاعری ، ناول ، افسانہ اور سوانح کی صنف پر توجہ دی اور کئی شعراءو ادباءپر مضامین لکھے جن میں پرانے لکھنے والے بھی شامل ہیں اور نئے لکھنے والے بھی۔ ان مختلف النوع مضامین سے ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔



ممتاز حسین


ممتاز حسین بھی مارکسی رجحان کے علمبردار ہیں ۔ اگرچہ دوسرے مارکسی نقادوں میں چھوٹے ہیں تاہم ممتاز حسین نے بھی بہت کچھ لکھا اور ان کے مضامین کے تین مجموعے ”نقد حیات ، نئی قدریںاور ادبی مشاغل “ شائع ہو چکے ہیں۔ ممتاز حسین کے بھی بعض مضامین میں اصولوں کی بحث ہے جبکہ کچھ علمی تنقید کے متعلق ہے۔ ان کے مضامین تنقید کا مارکسی نظریہ ، بدلتی نفسیات ، انفعالی رومانیت ، آرٹ اور حقیقت اور نیا ادبی فن ، وغیرہ میں اصولی اور نظریاتی بحثیں ہیں جبکہ ‘”نئی غزل کا موجد ۔۔حالی “ ”اردو شاعری کا مزاج اور غالب“ ”سرسید کا تاریخی کارنامہ “ اقبال اور تصوف وغیرہ تنقید ی تجزئےے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتاز حسین نے تنقید کے مارکسی نظرےے کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے، ان کے ذہن میں اصول اور نظریات بہت واضح ہیں اور ان کے نقطہ نظر میں بڑی استواری ہے، لیکن ان کو پیش کرتے ہوئے وہ ایسی انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں کہ ان کی تنقید میں ایک الجھائو پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی تنقید ی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔


ظہیر کاشمیری


ترقی پسند نقادوں میں ایک نام ظہیر کاشمیری کا ہے۔ ظہیر کاشمیری نے ادب کو سماج کے طبقاتی نظام کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دو اہم مضامین ”لینن اور لٹریچر “ اور ”مارکس کا نظریہ ادب “ نہ صرف ان کی نظریاتی اساس کو واضح کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اس سانچے میں اردو شاعر ی اور نثر کے بیشتر سرمائے کو پرکھنے کی کوشش بھی کی۔ ظہیر کاشمیر ی کا تعلق چونکہ ٹریڈ یونین کے ساتھ رہا ہے اس لیے ان کے تنقید ی لہجے میں خطابت کا عنصر نمایاں ہے اور فیصلے میں تیقن اور قطعیت زیادہ ہے۔


ڈاکٹر عبادت بریلوی


ڈاکٹر عبادت بریلوی شروع شروع میں مارکسی نظریہ تنقید سے متاثر تھے، لیکن ان کی مارکسیت جلد ہی ختم ہو گئی، اگرچہ ادب اور زندگی کے مابین گہرے تعلق کے وہ اب بھی قائل ہیں ۔ عبادت بریلوی نے ترقی پسند تنقید میں حقیقت نگاری کو ملحوظ نظررکھا اور مارکسزم کو اپنا عقیدہ بنائے بغیر اس سے ادب پارے کی تنقید اور تفسیر میں معاونت کی۔ تنقید میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کا طریق عمل سائنسی ، انداز منطقی اور اسلوب جمالیاتی ہے۔ عبادت بریلوی قاری پر یورش کرنے کی بجائے اسے ادب پارے کی افادیت اور داخلی حسن کی طرف متوجہ کراتے ہیں۔ عبادت بریلوی نے محدود موضوعات پر کام کرنے کے بجائے تنقید کو وسعت عطاکی اور اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ، اردو شاعری کی جدید رجحانات ، ادب کا افادی پہلو ، جدید اردو شاعری میں عریانی ، اردو افسانہ نگاری پر ایک نظر ، وغیرہ مضامین میں سیر حاصل جائزے مرتب کیے ۔ بلاشبہ ترقی پسند ادب کو جو قبول عام حاصل ہوا اس میں عبادت بریلوی کی عملی تنقید نے اہم کردار اداکیا۔




سید وقار عظیم


سید وقار عظیم کی تنقید سماجی اور عمرانی تجزےے پر استوار ہوئی ۔ انہوں نے مارکسی نظریات کی بلاواسطہ تائید نہیں کی اور وہ ادب کی اعلیٰ قدروں کی صداقت کو بنیادی قدروں سے الگ شمار نہیں کرتے ۔ تاہم انہوں نے ادب کی مقصدیت کو قبول کیا۔وقار صاحب کی اہمیت اردو افسانوی ادب کے نقاد کی حیثیت سے عام طور پر مسلمہ ہے ۔ انہوں نے افسانہ ، ناول ، داستان اور ڈرامہ کے فن سے متعلق اصولی اور نظریاتی مباحث پر بھی بہت کچھ لکھا اور ان اصناف کے مصنفین پر بھی توجہ دی ۔وقار صاحب کے تنقیدی اسلوب میں بڑی نرمی ، دھیما پن اور توازن ہے، ساتھ ہی پختگی اور دل نشینی بھی ہے جو چونکا دینے والی بات کہنے کے شائق نہیں اور نہ ہی ان کی تنقید میں کوئی تیکھا پن یا شوخی ملتی ہے۔ سادگی ، سلاست ، آہستہ روی اور ذرا سی رنگینی ان کے انداز کی خصوصیات ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے دور ِ آخر کے نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن اور عابد منٹو قابلِ ذکر ہیں۔ ان نقادوں نے ترقی پسند تحریک کی یک طرفہ قصیدہ خوانی کرنے کے بجائے اس تحریک کے عیوب کا بھی تذکرہ کیااور ترقی پسند ادباءکی سطحیت پر کھلی تنقید بھی کی۔



******************************


Friday 10 February 2012

ساحر لدھیانوی





ساحر لدھیانوی





قلمی نام

ساحر لدھیانوی

نام

عبد الحئ


شاعر

لدھیانہ , بھارت

پیدائش

1921-03-08   لدھیانہ - بھارت

وفات

1980-10-25   ممبئی - بھارت


لنک

www.youtube.com/watch?v=HzHaNAldLjo&feature=related

لنک

www.en.wikipedia.org/wiki/Sahir_Ludhianvi



ممبر

 انجمن ترقی پسند مصنفین


ساحر لدھیانوی کی تصنیفات

تانیا (س ن - 46 صفحات) مکتبۂ اُردو. لاہور (ترجمہ)

میں پل دو پل کا شاعر ہوں 

آؤ کہ خواب بنیں (1981ء-120 صفحات) ناشر:اسٹار پبلی کیشنز. نئی دہلی 

گاتا جائے بنجارا

پرچھائیاں

تلخیاں (طبع ششم1949ء)حالی پبلشنگ ہاؤس،دہلی(شاعری)

کلیات ِ ساحر: ناشر:رابعہ بک ہاؤس،لاہور



 ساحر لدھیانوی پر لکھے گئے مقالات

 مقالات پی ایچ ڈی

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر ضیاء الدین نگران ڈاکٹر محمد مطیع الرحمٰن، للت نرائن متھلا یونیورسٹی. دربھنگا، 1989ء

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر آنسہ پروین نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاَں. دین دیال اپادھیاے یونیورسٹی. گورکھپور، 1999ء

== ساحر لدھیانوی اور معاصر شعراء - ایک جائزہ، ڈاکٹر عبدالرؤف شاد نگران ڈاکٹر یونس غازی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی. میرٹھ ، 2003ء


مقالات ایم فل

== ساحر: شخص اور شاعر، انور ظہیر نگران ڈاکٹر اسلم پرویزجواہرلعل نہرو یونیورسٹی. دہلی، 1988ء

؎کتابیات (تذکرے، تاریخ، تنقید و وفیات)

== سُرورِ رفتہ، امیر چند بہار، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری. پٹنہ، 1998ء صفحہ 257

== نکہتِ اُردو، پروفیسر درخشاں کاشف، قمر کتاب گھر. کراچی، 2004ء صفحہ 255

== جامعات میں اُردو تحقیق، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ہائر ایجوکیشن کمیشن. اسلام آباد ،2008ء صفحہ 156


رسائل

کتابیات (ساحر شناسی)

== ساحر لدھیانوی: ایک مطالعہ، مخمور سعیدی






کلام

کبھی کبھی



کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گذرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدّر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن ، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسیں فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں،ترا غم،تیری جستجو بھی نہیں
گذر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دُکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گذر رہا ہوں کچھ انجانی رہگذاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پُر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مرے  ہم نفس ، مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے



ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



غزل


محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو،زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

اُنہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے

بس اب تو دامن ِ دل چھوڑ دو بے کار امیدو

بہت دکھ سہہ لئے میں نے بہت دن جی لیا میں نے



ٌ