Thursday 22 March 2012

فیض احمدفیض : تلخی امروزاورشیرینی فردا کا شاعر







فیض احمدفیض



                  تلخی امروزاورشیرینی فرداکاشاعر 
                    
غلام نبی خیال





فیض احمدفیض کی داستانِ زندگی کُلفتوں اورراحتوں کی کہانی ہے جس میں بالآخرصدیوں سے بہتی ہوئی نورکی ایک بوندہرشب تارکوماہ تمام کی سیمیں روشنی سے منورکرلیتی ہے اورحسن وصداقت کایہ نُورسالہاسال کااحاطہ کرتاہواانسان کی نیک قدروں اوردانش کے جلال جمال کونئی جلوہ باری سے روشن کرلیتاہے۔
فیض کاغم اُس کااپناغم نہیں، یہ غم ایرانی طلباءکے خون کاغم ہے، فلسطین کی محکومی کاقلق ہے اورافریقہ کے غلاموں کی اذیتوں کادرداورانقلابِ روس کارجزبھی ہے:


آجامیں نے سُن لی تیرے ڈھول کی ترنگ
آجامست ہوگئی میرے لہوکی تال
آجاایفریقا

آجامیں نے دھول سے ماتھااُٹھالیا
آجامیں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجامیں نے دردسے بازوچھڑالیا
آجامیں نے نوچ دیابے کسی کاجال
آجاایفریقا


فیض احمدفیض کرب کاشیدائی ہے جوحُسنِ ماہ سے دل کوجلاتاہے ۔ فیض نے زندان کوآہنی زنجیروں سے تلواریں نہیں بلکہ قلم کی نوکیں تراش لیں اوراس کایہ بے ضررمگربااثرہتھیاربرصغیرکی اُردوشاعری کے مزاج میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کاباعث بن گیا:


دیکھ کرآہنگرکی دُکاں سے
تندہیں شعلے سُرخ ہے آہن
کھلنے لگے قُفلوں کے دہانے
پھیلاہراک زنجیرکادامن
بول یہ تھوڑاوقت بہت ہے
جسم وزبان کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جوکچھ کہناہے کہہ لے


کسی شاعریادانشورکواگرجیل جانے کااِتفاق ہوااوراگراُسے زنداں میں اُن دوسرے قلم کاروں، شاعروں یاادیبوں کی نگارشات کامطالعہ کرنے کابھی موقعہ نصیب ہواجوبجائے خودقیدخانوں ہی میں تخلیق کی گئی ہوں تواس تجربے کاعالمِ احساس ہی عجیب وغریب ہوتاہے۔ جہاں آپ نے کسی کے زنداں نامہ میں دردِ دل یاغم جہاں کانوحہ پڑھ لیاوہاں آپ کویہ اپنی ہی زندگی کاحال دکھائی دیا۔ زندانی تخلیقات میں کسی اورقیدی کے خیالات میں استبدادا ور وقتی جبرکے بوجھ تلے ایک آزادفضاکی صبح کی طلوع کی بشارت دی گئی ہوتویہ سارامنظرنامہ آپ کواپنی ہی پابہ جولاں زندگی کی کہانی کاآئینہ دارنظرآتاہے ۔
میں خوداس تجربے کے انوکھے دورسے گذرچکاہوں اوریہی وجہ ہے کہ فیض کے ساتھ ساتھ میں جواہرلال نہرو، مولاناآزاد، سجادظہیر، ناظم حکمت جولیس فیوچک کے علاوہ ذولفقارعلی بھٹو اورسب سے بڑھ چڑھ کراپنے آپ کوفیض کاہم نواتصورکرتاہوں۔


محبت اتفاق ہے کہ گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب فیض احمدفیض ، سجادظہیراوراُن کے کئی احباب کوراولپنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے قیدخانے میں ڈال دیاگیا۔ کشمیرمیں بھی کشمیرسازش کیس میں ماخوذکرکے مجھے دوسال تک قیدوبندمیں رکھاگیا۔ اس دوران میں نے اُن برگزیدہ اصحابِ دانش وقلم کی زندانی تخلیقات کابھرپوراورپُرشوق مطالعہ کیاجن کااوپرذکرہواہے ۔


نہرواورآزادتوکئی سال تک تحریک آزادی ہندکے دوران جیل خانوں میں اپنے ہی وطن میں قیدیوں کی زندگی گذارنے پرمجبورکئے گئے ، ناظم حکمت کوتُرکی سے بالآخراسی نوع کاالم ناک دوردیکھنے کے بعدروس جلاوطن ہوناپڑااورچیکوسلوواکیہ کے جولیس فیوچک کوعالمِ شباب میں ہی نازی عدالت نے برلن میں 25 اگست 1943 ءکوپھانسی کی سزاسنائی تھی جسے صرف تیرہ دن بعدعمل میں لایاگیا۔


تختہ دارپرچڑھائے جانے سے قبل جولیس فیوچک نے موت کے فرشتے کواپنی آنکھوں کے سامنے رقصاں دیکھ کرزندگی سے اپنی بے پناہ چاہت کوامربنانے کے لئے یہ الفاظ رقم کرلئے :”مجھے زندگی سے محبت تھی اوراسی کے حسُن نے مجھے مرنے کے لیے میدان میں بھیج دیا۔ انسانو! مجھے تم سے محبت تھی اورمیں خوش ہوتاتھاجب تم میری محبت کاجواب محبت سے دیتے تھے ۔ جب بھی تم نے مجھے غلط سمجھاتومجھے تکلیف ہوئی۔ تم میں سے جسے بھی میں نے تکلیف پہنچائی مجھے معاف کرواورمجھے چاہنے والو! مجھے بھول جا۔یاس وغم کوکبھی غم کے ساتھ وابستہ نہ کرنا۔ میری ماں اورباپ اوربہنواورتم میری آگسٹینااورمیرے تمام ساتھیوجنھیں میں نے ہمیشہ رفیق رکھا۔ تم سے میری یہ آخری وصیت ہے۔ اگرتمہاراخیال ہے کہ آنسوغم کے میل کودھولیں گے توچندلمحے بیٹھ کررولینالیکن دل کوملول نہ کرنا۔ میں مسرت اورشادمانی کے لئے زندہ رہااورمیں مسّرت اورشادمانی ہی کے لئے جان بھی دے رہاہوں۔ اسی لئے میری قبرپرغم ویاس کابُت نصب کرکے میرے ساتھ ناانصافی نہ کرنا“۔


جیولیس فیوچک کایہ اقتباس یہاں پراس لحاظ سے برمحل اورحسب حال ہے کہ فیض قیدوبندکے دنوں میں جن دومغربی ترقی پسندادیبوں سے سب سے زیادہ متاثرہوااُن میں ناظم حکمت اورفیوچک شامل ہیں۔فیض نے حکمت کے کلام اورفیوچک کے ”پھانسی کے سائے میں“ سے کئی جگہ استفادہ بھی کیاہے اوراُن کی منظومات میں بارباران دونوں کے خیالات اورحیات پرورمحسوسات کی جھلک واضح طورپردکھائی دیتی ہے ۔


سری نگرکے سنٹرل جیل میں ہی مجھے بھی فیض کامطالعہ کرنے کاموقعہ ملا اوراس طرح سے میرے اولین مجموعہ کلام ”سازِ زنجیر“ میں فیض کااثراورفیضانِ سخن واضح طورپرجلوہ آراہے۔ اسی دوران میں نے فیض کے اس عدیم المثال شہہ پارے کاکشمیری ترجمہ بھی کیاجسے میں فیض کی زندانی شاعری کادُرِ بیش بہاسمجھتارہا :

ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے
دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
قیدخانوں کی تہہ میں اُتارے گئے
ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

فیض نے یہ نظم جیولس روزنبرگ اورایتھل امریکی جوڑے کوروس کے لئے جاسوسی کرنے کی پاداش میں 1953 میں امریکی سرکارنے موت کی سزادے کران دونوں کوبرقیاتی کرسی پربٹھاکران کاکام تمام کردیا۔ ہینڈی سازش کیں۔ داد ،فیض اورکارظہرکوموت کی سزافیض نے اسی پس منظرمیں  :

مقام فیض کوئی راہ میں جچاہی نہیں
جوکوئے یارسے نکلے توسوئے دارچلے

فیض کے ایک انگریزمُترجم پروفیسروی جی کیرنن کابھی یہی خیال ہے کہ ”فیض کی بہترین شاعری وہی ہے جواُس نے قیدخانوں میں تخلیق کی ہے


فیض ہربدصورتی میںخوبصورتی کی تلاش کرتاتھا۔ اس کی نظروں میں اگرسڑکوں اورگلی کوچوں میں پڑے ہوئے کتے بھی دوسروں کے پھینکے ہوئے ٹکڑوں کوایک دوسرے سے چھیننے اورخواب خرگوش سے بیدارہونے کاعزم کریں تووہ دُنیاکوتبدیل کرسکتے ہیں اورآقاں کی ہڈیاں چباسکتے ہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی اُن کی سوئی ہوئی دُم ہلادے۔


جستجوئے حسن اورتلاش جمال کے اس شوق اورلگن کے بارے میں فیض خودکہتاہے ۔”مجھے یادہے کہ ہم لاہورمیں مستی دروازے کے اندررہتے تھے ۔ ہماراگھربالائی سطح پرتھا۔ نیچے بدروبہتی تھی ۔ چھوٹاساایک چمن بھی تھا۔ چارطرف باغات تھے۔ ایک رات چاندنکلاہواتھا، چاندنی بدرواوراردگردکے کوڑے کرکٹ کے ڈھیرپرپڑرہی تھی۔ چاندنی اورسائے یہ سب مل کرکچھ عجیب پراسرارمنظربن گئے تھے۔ چاندکی عنایت سے منظرکی بدوضعی چھپ گئی تھی اورکچھ عجیب ہی قسم کاحسن پیداہوگیاتھا۔ جسے میں نے لکھنے کی کوشش بھی کی ہے ۔ ایک آدھ نظم میں منظرکشی کی ہے ۔ جب شہرکی گلیوں، محلوں اورکٹڑیوں میں کبھی دوپہرکے وقت کبھی شام کے وقت کچھ اس قسم کاروپ آجاتاہے جیسے معلوم ہوکوئی پرستان ہو۔

صلیبیں میرے دریچے میں“میں فیض نے اسی حسنِ خیال اوردُنیائے حسن وجمال کے خوش آئندپہلوں کایوں تذکرہ کیاہے۔


”ایسے لمحے بھی آتے ہیں کہ کوئی ننھاسابیج بوجھل مٹی بہت سلیقے سے ہٹاکرایک ننھی سے کونپل زمین سے برآمدکرتاہے اوراسے دیکھ کردل بے پناہ اورقابل بیان مسرت سے لبریزہوجاتاہے اورتمام وقت دل جانتاہے کہ اسی سبزننھی کونپل کے ہاتھوں میں حقیقت بھی ہے اورابدیت بھی۔ جیل کی دیواریں اورپہریداراوروردیاں سب جھوٹ ہیں سب غیرحقیقی ہیں۔ اسی صورت سے دل یہ بھی جانتاہے کہ ہم میں سے ہرایک لحدمیں سوجانے کے بعدبھی جینے والوں کی ملکیت اوراُن کے رنج وراحت میں دخیل رہتاہے ۔ جیل میں محرومیاں بہت ہیں لیکن جینے اورہنسنے اورپیارکرنے کے اسباب میں یہاں بھی کمی نہیں ہوتی“۔


فیض تابناک اُمید۔ روشن مستقبل اورانسان کی ابدیت اوراُس کی عظیم انسانی اقدارکاایک مجسم تھا۔ اس پس منظرمیں جب وہ جیل خانے میں بھی تھاتووہ اسی ابدی اُمیدکے نغمے ایک مخمورگویےّ کی طرح گاتاتھا :


ہم اہلِ قفس تنہابھی نہیں ہرروزنسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطرآتی ہے اشکوں سے منّورجاتی ہے


فیض کی تہلکہ مچانے والی شاعری کاسُروراُس کے ہم عصروں کے دل ودماغ کوبھی اپنے قابومیں کرچکاتھا۔اُس کے ایک روسی مداح اورتجزیہ نگارالیکزینڈرسرکوف نے یہ واقعہ بیان کیاہے کہ ایک بارپرانی دہلی میں ایک مشاعرہ ہورہاتھا۔ جب مشاعرہ اختتام کوپہنچنے کوتھاکہ علی سردارجعفری مایک پرآکرفیض کے اشعارکی ادائیگی اوراس جیسے طرح دارآوازکے مالک کی زبانی۔ محفل پرگویاجادوطاری ہوا۔ ایسالگاکہ فیض اس مجلس میں موجودتھا۔ سرداراس ادائیگی میں اس قدرکھوگیاکہ وہ اپناکلام سُنانابھول ہی گیا“۔


فیض آنے والے کل کے تناظرکوبھی اپنی دُوربین نگاہوں سے دیکھ کردُنیامیں بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کرنے والاایک منفردفن کارتھا۔ بیسویں صدی میں جہاں اس نے ایران، چین ، سنکیانگ ، افریقہ کی کشتہ سرزمین اورعوام کے سوختہ دلوں کی دھڑکنوں کواپنے احساس کے کان لگاکرپوری طرح سُن لیاوہاں اُس کے لاشعورمیں اُن اقوام میں اُس وقت آزادہوئے ممالک میں استعماریت اورشخصی حکومتوں کے ناقابل برداشت اورعفونت زدہ تسلسل کے اختتام کابھی ایک اندازہ تھا۔ یہ صورت ِحال مصر، لیبیا، بحرین ، تیونس اورچین میں آج شعلہ بدامان ہے ۔


جولیس اوزبزگ اوراُس کی اہلیہ ایتھل دونوں امریکی اشتراکی تھے جنھیں 1953ءمیں امریکہ نے پھانسی کی سزادی ۔ یہ سزاانہیں اس لئے دی گئی کہ وہ مبینہ طورپردورانِ جنگ جاسوسی کی سازش میں ملوث تھے۔ ان الزاما ت میں ایٹم بم سے متعلق جانکاری سوویت یونین کودیناشامل تھا۔ امریکہ کی تاریخ میں یہ پہلاواقعہ ہے جب عام شہریوں کوسزائے موت دی گئی ہو۔ اس سلسلے میں افسوس ناک بات یہ ہے کہ امریکی حکومت نے اس ضمن میں کئی ایسی دیگرشخصیات کوبیمہانہ طورپرزیرعتاب لایاجن کے نام کاایک حصہ روزن برگ تھا۔ جولیس ایک برقیاتی انجینئرتھااورایتھل ایک اداکارہ اورگلوکارہ تھی۔ ان دونوں کے خلاف مقدمہ اگست 1950ءمیں ہوا۔ مارچ 1951ءمیں اس کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ 19 جون 1953ءکوبالآخران دونوں کوبرقیاتی کرس پربٹھاکربجلی کے جھٹکوں سے ان کی جان نکالی گئی۔


نہ مدعّی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھارزقِ خاک ہوا


زنداں نامہ کے آغازمیں سابق میجرمحمداسحاق رودادِ قفس کے عنوان کے اس واقعہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتاہے کہ ”ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے“ ۔ روزن برگ جوڑے کی بے مثال قربانی سے مُتاثرہوکرلکھی گئی ہے جومرتے دم تک انسانیت کے مستقبل ، انقلابات ماتحت یاان سب کے ساتھ اپنی وفاداری جتلاتے رہے ۔ فیض کی اس نظم کی آفاقیت عجیب وغریب ہے۔ انہوں نے صدیوں کوپاٹ کرہرزمانے اورہزاروں میل کی مسافت طے کرکے ہرملک کے شہیدوں کوایک صف میں کھڑاکردیاہے۔ یہ نظم کربلا، پلاس، سرنگاپٹنم ، جھانسی، جلیانوالہ ، قصّہ خوانی ، سٹالن گرا، ملایا، کینا، کوریا، تلنگانہ، مراقش ، تیونس سبھی سے متعلق معلوم ہوتی ہے اورتہران ، کراچی اورڈھاکہ کی سرماکوں پردم توڑتے طلباء، مراقش، تیونس ، کینیااورملایاکے خون میں لت پت سب ایک ہی جاں فروزنعرہ دوہراتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دارکی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیل غم
اپناغم تھاگواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جوتاریک راہوں میں مارے گئے

جن شاعروں کے خیالات پرالہام کاورودہووہ آنے والے ادوارکے بارے میں تصوراتی طورپراُن کوائف کی جھلک واضح طورپردیکھتے ہیں جواقوام اورممالک کی تاریخ سازتبدیلیوں کاپیش خیمہ بن جاتی ہیں۔ ایک اورممتازترقی پسندشاعرمخدوم محی الدین نے پچاس سال قبل تلنگانہ کی تحریک کواپنے اشعارسے حرارت بخشی تھی اورآج یہ تحریک ایک ملک گیرموضوع کادرجہ حاصل کرچکی ہے۔

مشرق وسطیٰ اورافریقہ میں اس وقت جوانقلاب آفریں اورہنگامہ خیزواقعات رونماہورہے ہیں ان کی صدائے بازگشت فیض کی ان منظومات میں آج سنائی دیتی ہے جواس نے گذشتہ صدی کے پانچویں عشرے میں تخلیق کیں۔ اس قبیل کی فیض رجزخوانی ایک پیغمبرانہ پیش گوئی کی طرح اس زودحس اوردوربین سخنورکی معاملہ فہمی اورسیاسیات عالم پراس کی گہری نظرکاماحصل ہے جب وہ کہتاہے:


اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیرنہیں
جودریاجھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
کٹتے بھی چلوبڑھتے بھی چلوبازوبھی بہت ہیں سربھی بہت
چلتے بھی چلوکہ اب ڈیرے منزل پہ ہی ڈالے جائیں گے
اے خاک نشینواُٹھ بیٹھووہ وقت قریب آپہنچاہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے۔


فیض کی شاعری جب بھی زیرمطالعہ آتی ہے یاسُنائی جاتی ہے توحافظ شیرازی کایہ شعربے ساختہ زبان پرآجاتاہے :

نفسِ بادِمبامشک فشاں خواہدشد
عالمِ پیردگرب ارہ جواں خواہدشد


یہ مضموٗن     http://urdualive.com  سے ماخوٗذ ہے۔

*********