Tuesday 14 February 2012

تمہارا نام لکھا ہے







تمہارا نام لکھا ہے

فرید قمر




تمہارا نام لکھا ہے

اجالوں سے اندھیروں تک

درختوں پر

درختوں کی ہری شاخوں سے

شاخوں کے ہرے پتوں سے لے کر

پرندوں کے بسیروں تک

تمہارا نام لکھا ہے

کبھی سورج کی کرنوں پر

بہاروں پر

نظاروں ، ریگزاروں پر

ستاروں پر

پہاڑوں، آبشاروں پر

تمہارا نام لکھا ہے


***************

Sunday 12 February 2012

ترقی پسند تنقید







ترقی پسند تنقید



ترقی پسند تحریک کی تنقیدمیں  شروع میں اتنہا پسندی کا رجحان زیادہ تھا ۔ اس انتہا پسندی کے جوش میں انھوں نے میرتقی میر سے لے کر غالب تک بعض اچھے شعراءکو صرف اس جرم کی پاداش میں یکسر قلم زد کر دیا کہ انہوں نے طبقاتی کشمکش میں کسی طرح کا کردار ادا نہیں کیا۔اکبر الہ آ بادی ، حالی ، سرسید ، اقبال وغیرہ ان کے لیے ناقابلِ قبول قرار پائے ۔لیکن اس ابتدائی جارحیت کے بعد مجنوں گورگھپوری ، احتشام حسین ، عزیز احمد اور دیگر سلجھے ہوئے ناقدین نے اشتراکیت کے بارے میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے عصری ادب میں نئی جہات دریافت کیں ۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کے شعراءپر نئے زاوےے سے روشنی ڈال کر ان کی عظمت میں اضافہ کیا۔
انھوں نے پہلی مرتبہ مارکسی تنقید کی ابتداءکی ۔ اس سلسلے میں جدلیاتی ، مادیت ، طبقاتی کشمکش اور انقلاب کو سامنے رکھ کر ادب کے مسائل پر غور کیا گیا۔ذیل میں ہم فرداً فرداً ان نقادوں کی تنقید کا جائزہ لیں گے۔



ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری


ترقی پسند تنقید میں پہلا اور اہم نام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا ہے۔ مقالہ ”ادب اور زندگی “ جو اختر حسین رائے پوری نے 1935ءمیں لکھا اُسے مارکسی تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ اختر حسین رائے پوری کا خیال ہے کہ ادب اور انسانیت کے مقاصد ایک ہیں ۔ ادب زندگی کا ایک شعبہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مادی سرزمین میں جذبات ِ انسانی کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے روح القدس بننے اور عرش پر جا کر بیٹھنے کا دعویٰ کرے ۔ ادب کا مقصد یہ ہونا چاہےے کہ وہ ان جذبات کی ترجمانی کرے جو دنیا کو ترقی کی راہ دکھائیں اور ان جذبات پر نفرین کرے جو دنیا کو آگے بڑھنے نہیں دیتے ۔وہ لکھتے ہیں: ” ادب کا فرضِ اولین یہ ہے کہ دنیا سے ، قوم ، وطن ، رنگ ، نسل اور طبقہ مذہب کی تفریق کو متانے کی تلقین کرے اور اس جماعت کا ترجمان ہو جو نصب العین کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کر رہی ہے۔
وہ مارکسی تنقید کے اولین نقاد ہیں اور بہت کم لکھنے کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت برقرار ہے۔



سید سجاد ظہیر



سجاد ظہیر ترقی پسند تنقید ی تحریک کے بانیوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کو نظریاتی اساس مہیا کی اور پھر عمدہ وکالت سے اس تحریک کی سب سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ تنقید کے موضوع پر انہوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی۔ لیکن ان کی کتاب ”روشنائی “ ترقی پسند تحریک کی تاریخ بھی ہے اور کسی حد تک تنقید بھی ہے۔ سجاد ظہیر اردو کے پہلے نقاد ہیں جن کے مضامین مارکسی تنقید کے آئینہ دار ہیں۔ سجاد ظہیر نے صرف چند مضامین لکھے ہیں ، بقول عبادت بریلوی ان مضامین میں ایسی گہرائی ہے جس نے تنقیدی اعتبار سے ان کو بہت اہم بنا دیاہے۔




ڈاکٹر عبدالحلیم


ڈاکٹر عبدالحلیم کا بھی وہی حال ہے جو سجاد ظہیر کا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سجاد ظہیر کی طرح صرف چند تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ اور ان مضامین میں مارکسی تنقید کا نظریہ پوری طرح پیش کیاہے۔ اس سلسلے میں ان کے مضامین ”ادبی تنقید کے بنیادی اصول“ اور ”اردو ادب کے رجحانات“ قابلِ ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ مارکسی تنقید کی عملی شکل کے نمونے ان کے مضامین ” اردو ادب کے رجحانات “ اور ”ترقی پسند ادب کے بارے میں چند غلطیاں “ میں ملتے ہیں۔



مجنوں گورکھپوری



مجنوں گورکھپوری کی تنقید نے رومانیت سے مارکسیت کی طرف آہستگی سے سفر کیا ، کیونکہ ابتداءمیں ان کے یہاں ایک عرصے تک تاثراتی تنقید کا انداز غالب رہا ۔ مجنوں کی اتبدائی تنقید تحریریں جو ”تنقید حاشےے “ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں، تاثراتی تنقید کا انداز نمایاں ہے۔
بعد میں ان میں مارکسی تنقید کے اثرات غالب نظرآتے ہیں اور یہ ترقی پسند تحریک کا اثر ہے۔ چنانچہ ان کے دوسرے مجموعہ مضامین ” ادب اور زندگی “ ، ”مبادیاتِ تنقید “ زندگی اور ادب کا بحرانی دور“ اور ”ادب اور ترقی “ میں انہوں نے اپنے قائم کردہ تنقید نظریات کی روشنی میں عملی تنقید کی ہے۔ وہ بھی دوسر ے ترقی پسند نقادوں کی طرح ادب کو زندگی کی کشمکش کا رجحان سمجھتے ہیں۔لیکن مارکسی ہونے کے باوجود اُن کے ہاں ایک توازن کی کیفیت ملتی ہے اور اتنہا پسندی اُن کے ہاں پیدا نہیں ہوتی۔



سید احتشام حسین



مارکسی نقادوں میں سید احتشام حسین سب سے موقر ، معتبر اور معتدل نقاد تھے۔ انہوں نے نہ صرف مارکسی تنقید کو اساس بنایا بلکہ اسے زندگی کے طرز عمل کے طور پر قبول بھی کیا۔ تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ اوران کی تمام تر توجہ اسی فن کی طرف رہی ہے۔ سید احتشام حسین کے تنقید مضامین کے جو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان میں ”تنقید ی جائزے“ ”روایت اور بغاوت“ ”ادب اور سماج“ ” تنقید اور عملی تنقید “ ”ذوق ، ادب اور شعور “ ”افکار و مسائل “ اور ”عکس اور آئینے “ شامل ہیں۔
اُن کے ان مضامین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہو ں نے نہایت متنوع اور مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ انہوں نے تنقید ی نظریات و اصول کے علاوہ شاعری ، ناول ، افسانہ اور سوانح کی صنف پر توجہ دی اور کئی شعراءو ادباءپر مضامین لکھے جن میں پرانے لکھنے والے بھی شامل ہیں اور نئے لکھنے والے بھی۔ ان مختلف النوع مضامین سے ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔



ممتاز حسین


ممتاز حسین بھی مارکسی رجحان کے علمبردار ہیں ۔ اگرچہ دوسرے مارکسی نقادوں میں چھوٹے ہیں تاہم ممتاز حسین نے بھی بہت کچھ لکھا اور ان کے مضامین کے تین مجموعے ”نقد حیات ، نئی قدریںاور ادبی مشاغل “ شائع ہو چکے ہیں۔ ممتاز حسین کے بھی بعض مضامین میں اصولوں کی بحث ہے جبکہ کچھ علمی تنقید کے متعلق ہے۔ ان کے مضامین تنقید کا مارکسی نظریہ ، بدلتی نفسیات ، انفعالی رومانیت ، آرٹ اور حقیقت اور نیا ادبی فن ، وغیرہ میں اصولی اور نظریاتی بحثیں ہیں جبکہ ‘”نئی غزل کا موجد ۔۔حالی “ ”اردو شاعری کا مزاج اور غالب“ ”سرسید کا تاریخی کارنامہ “ اقبال اور تصوف وغیرہ تنقید ی تجزئےے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتاز حسین نے تنقید کے مارکسی نظرےے کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے، ان کے ذہن میں اصول اور نظریات بہت واضح ہیں اور ان کے نقطہ نظر میں بڑی استواری ہے، لیکن ان کو پیش کرتے ہوئے وہ ایسی انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں کہ ان کی تنقید میں ایک الجھائو پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی تنقید ی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔


ظہیر کاشمیری


ترقی پسند نقادوں میں ایک نام ظہیر کاشمیری کا ہے۔ ظہیر کاشمیری نے ادب کو سماج کے طبقاتی نظام کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دو اہم مضامین ”لینن اور لٹریچر “ اور ”مارکس کا نظریہ ادب “ نہ صرف ان کی نظریاتی اساس کو واضح کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اس سانچے میں اردو شاعر ی اور نثر کے بیشتر سرمائے کو پرکھنے کی کوشش بھی کی۔ ظہیر کاشمیر ی کا تعلق چونکہ ٹریڈ یونین کے ساتھ رہا ہے اس لیے ان کے تنقید ی لہجے میں خطابت کا عنصر نمایاں ہے اور فیصلے میں تیقن اور قطعیت زیادہ ہے۔


ڈاکٹر عبادت بریلوی


ڈاکٹر عبادت بریلوی شروع شروع میں مارکسی نظریہ تنقید سے متاثر تھے، لیکن ان کی مارکسیت جلد ہی ختم ہو گئی، اگرچہ ادب اور زندگی کے مابین گہرے تعلق کے وہ اب بھی قائل ہیں ۔ عبادت بریلوی نے ترقی پسند تنقید میں حقیقت نگاری کو ملحوظ نظررکھا اور مارکسزم کو اپنا عقیدہ بنائے بغیر اس سے ادب پارے کی تنقید اور تفسیر میں معاونت کی۔ تنقید میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کا طریق عمل سائنسی ، انداز منطقی اور اسلوب جمالیاتی ہے۔ عبادت بریلوی قاری پر یورش کرنے کی بجائے اسے ادب پارے کی افادیت اور داخلی حسن کی طرف متوجہ کراتے ہیں۔ عبادت بریلوی نے محدود موضوعات پر کام کرنے کے بجائے تنقید کو وسعت عطاکی اور اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ، اردو شاعری کی جدید رجحانات ، ادب کا افادی پہلو ، جدید اردو شاعری میں عریانی ، اردو افسانہ نگاری پر ایک نظر ، وغیرہ مضامین میں سیر حاصل جائزے مرتب کیے ۔ بلاشبہ ترقی پسند ادب کو جو قبول عام حاصل ہوا اس میں عبادت بریلوی کی عملی تنقید نے اہم کردار اداکیا۔




سید وقار عظیم


سید وقار عظیم کی تنقید سماجی اور عمرانی تجزےے پر استوار ہوئی ۔ انہوں نے مارکسی نظریات کی بلاواسطہ تائید نہیں کی اور وہ ادب کی اعلیٰ قدروں کی صداقت کو بنیادی قدروں سے الگ شمار نہیں کرتے ۔ تاہم انہوں نے ادب کی مقصدیت کو قبول کیا۔وقار صاحب کی اہمیت اردو افسانوی ادب کے نقاد کی حیثیت سے عام طور پر مسلمہ ہے ۔ انہوں نے افسانہ ، ناول ، داستان اور ڈرامہ کے فن سے متعلق اصولی اور نظریاتی مباحث پر بھی بہت کچھ لکھا اور ان اصناف کے مصنفین پر بھی توجہ دی ۔وقار صاحب کے تنقیدی اسلوب میں بڑی نرمی ، دھیما پن اور توازن ہے، ساتھ ہی پختگی اور دل نشینی بھی ہے جو چونکا دینے والی بات کہنے کے شائق نہیں اور نہ ہی ان کی تنقید میں کوئی تیکھا پن یا شوخی ملتی ہے۔ سادگی ، سلاست ، آہستہ روی اور ذرا سی رنگینی ان کے انداز کی خصوصیات ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے دور ِ آخر کے نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن اور عابد منٹو قابلِ ذکر ہیں۔ ان نقادوں نے ترقی پسند تحریک کی یک طرفہ قصیدہ خوانی کرنے کے بجائے اس تحریک کے عیوب کا بھی تذکرہ کیااور ترقی پسند ادباءکی سطحیت پر کھلی تنقید بھی کی۔



******************************


Friday 10 February 2012

ساحر لدھیانوی





ساحر لدھیانوی





قلمی نام

ساحر لدھیانوی

نام

عبد الحئ


شاعر

لدھیانہ , بھارت

پیدائش

1921-03-08   لدھیانہ - بھارت

وفات

1980-10-25   ممبئی - بھارت


لنک

www.youtube.com/watch?v=HzHaNAldLjo&feature=related

لنک

www.en.wikipedia.org/wiki/Sahir_Ludhianvi



ممبر

 انجمن ترقی پسند مصنفین


ساحر لدھیانوی کی تصنیفات

تانیا (س ن - 46 صفحات) مکتبۂ اُردو. لاہور (ترجمہ)

میں پل دو پل کا شاعر ہوں 

آؤ کہ خواب بنیں (1981ء-120 صفحات) ناشر:اسٹار پبلی کیشنز. نئی دہلی 

گاتا جائے بنجارا

پرچھائیاں

تلخیاں (طبع ششم1949ء)حالی پبلشنگ ہاؤس،دہلی(شاعری)

کلیات ِ ساحر: ناشر:رابعہ بک ہاؤس،لاہور



 ساحر لدھیانوی پر لکھے گئے مقالات

 مقالات پی ایچ ڈی

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر ضیاء الدین نگران ڈاکٹر محمد مطیع الرحمٰن، للت نرائن متھلا یونیورسٹی. دربھنگا، 1989ء

== ساحر لدھیانوی: حیات اور شاعری، ڈاکٹر آنسہ پروین نگران ڈاکٹر افغان اللہ خاَں. دین دیال اپادھیاے یونیورسٹی. گورکھپور، 1999ء

== ساحر لدھیانوی اور معاصر شعراء - ایک جائزہ، ڈاکٹر عبدالرؤف شاد نگران ڈاکٹر یونس غازی، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی. میرٹھ ، 2003ء


مقالات ایم فل

== ساحر: شخص اور شاعر، انور ظہیر نگران ڈاکٹر اسلم پرویزجواہرلعل نہرو یونیورسٹی. دہلی، 1988ء

؎کتابیات (تذکرے، تاریخ، تنقید و وفیات)

== سُرورِ رفتہ، امیر چند بہار، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری. پٹنہ، 1998ء صفحہ 257

== نکہتِ اُردو، پروفیسر درخشاں کاشف، قمر کتاب گھر. کراچی، 2004ء صفحہ 255

== جامعات میں اُردو تحقیق، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ہائر ایجوکیشن کمیشن. اسلام آباد ،2008ء صفحہ 156


رسائل

کتابیات (ساحر شناسی)

== ساحر لدھیانوی: ایک مطالعہ، مخمور سعیدی






کلام

کبھی کبھی



کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گذرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیرگی جو مری زیست کا مقدّر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانۂ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں کھو رہتا
ترا گداز بدن ، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسیں فسانوں میں محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی
ترے لبوں سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں،ترا غم،تیری جستجو بھی نہیں
گذر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دُکھوں کو لگا چکا ہوں گلے
گذر رہا ہوں کچھ انجانی رہگذاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے آتے ہیں
حیات و موت کے پُر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں مرے  ہم نفس ، مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے



ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰



غزل


محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو،زہر یہ بھی پی لیا میں نے

ابھی زندہ ہوں لیکن سوچتا رہتا ہوں خلوت میں
کہ اب تک کس تمنا کے سہارے جی لیا میں نے

اُنہیں اپنا نہیں سکتا مگر اتنا بھی کیا کم ہے
کہ کچھ مدت حسیں خوابوں میں کھو کر جی لیا میں نے

بس اب تو دامن ِ دل چھوڑ دو بے کار امیدو

بہت دکھ سہہ لئے میں نے بہت دن جی لیا میں نے



ٌ


اردو کتابوں کا ذخیرہ

Thursday 2 February 2012

اقبالیات: 'خضرِ راہ' : فنی فکری تجزیہ





اقبالیات


'خضرِ راہ'


فنی فکری تجزیہ



خضر راہ“نظم اقبال نے حمایت اسلام کے 37 ویں سالانہ اجلاس میں جو 12 اپریل 1922ءاسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ میں منعقد ہوا تھا میں ترنم سے پڑھ کر سنائی تھی۔ بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشکبار ہو گیا۔ عالم اسلام کے لئے وہ وقت بہت نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے ۔ اتحادیوں کے ایماءپر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اتار دی تھیں۔ شریف حسین جیسے لوگ انگریزوں کے ساتھ مل کر اسلام کا بیڑہ غرق کرنے میں پیش پیش تھے۔ خود ہندوستان میں تحرتک ہجرت جاری ہوئی۔  ادھر دنیائے اسلام کے روبرو نئے نئے مسائل آگئے۔ اقبال نے انہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضر کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی۔ اور نظم کا نام خضر راہ اسی وجہ سے رکھا۔ ابتداءمیں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔ پہلے دو بندوں کا عنوان تھا ”شاعر“ یعنی شاعر کا خضر سے خطاب باقی نو بندوں کا عنوان تھا ”جواب خضر “ ۔نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دئیے۔

فکری جائزہ:۔

اقبال کی یہ نظم اپنے دور میں بہت زیادہ مقبول ہوئی۔ اس کے بارے میں پروفیسر اسلوب احمد انصار ی لکھتے ہیں۔۔

اس نظم کی ہر دلعزیزی کا بڑا سبب اس کے موضوع یا موضوعات کا ہنگامی اہمیت کا حامل ہوناتھا۔

اس نظم کو فکری لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک حصہ ”شاعر“ کے عنوان سے پس منظر، خضر کی آمداور شاعر کے سوالات پر مبنی ہے جب کہ دوسرا حصہ خضر کے جواب پر مشتمل ہے۔ نظم کی ابتداءیوں ہوتی ہے کہ شاعر انتہائی پریشانی اور ذہنی کشمکش کی حالت میں سکون کی تلاش میں ساحل دریا کی جانب رخ کرتا ہے۔ شاعر کو ایک نئی صبح کی تلاش ہے۔ جہاں زندگی با معنی ہو۔ جہاں اس کاوطن عزیز فرنگی جال سے آزاد ہو۔ جہاں عالم اسلام یورپی رخنہ گردوں کے فتنہ و فساد سے محفوظ ہو۔

یہاں پہنچ کر اقبال دو حصوں میں منقسم ہو جاتا ہے۔ ایک شاعر اقبال اور دوسرا مفکر اقبال، شاعر اقبال سوال کرتا ہے اور مفکر اقبال جواب دیتاہے۔ پہلے بند میں منظر کشی کا بہترین نمونہ ملتاہے۔ جو کہ ایک خاص کردار خضر کے ظہور کے لئے ہے۔ یہاں ایک سکوت کی فضاءملتی ہے۔ وہ دراصل اس انسانی ماحول کے جمود کی طرف اشارہ کرتاہے۔ جس کو توڑنے کے لئے ہی شاعر کا دل ایک جہان ِ اضطراب بناہواہے۔۔

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب!

منظر فطرت کا یہ طلسم پانچویں ہی شعر میں ٹوٹ جاتا ہے اور نہایت ڈرامائی طور پر خواجہ خضر کی شخصیت منظر پر اُبھرتی اور جزو ِ منظر بن جاتی ہے۔ خضر شاعر کو بتاتا ہے کہ اگر چشم و دل وا ہو یعنی انسان کی روح اپنی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ بیدار ہو جائے، دل کی آنکھ کھل جائے تو دل کے اندر وہ روشنی پیدا ہو جاتی ہے جو مظاہر حیات اور واقعات عالم کے پیچھے مضمر حقائق کے مشاہدے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرار ازل
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب!

دوسرے بند کے پہلے دو شعروں میں قبال ”خضر “ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کائنات کے تما م سربستہ راز آپ پر منکشف ہیں اور آپ کو مستقبل کے وہ حالات بھی معلوم ہیں جو مستقبل میں ظہور پزیر ہوں گے۔ اقبال خضر کو موسیٰ کے مقابلے میں پیش کرتے ہیں کہ موسی کا علم بھی آپ کے سامنے ہیچ ہے۔ اسی لئے وہ اُن کے سامنے چند سوالات رکھتے ہیں اور سوال اُسی سے پوچھے جاتے ہیں جو صاحب ِ علم و صاحب اسرار ہو۔ سوالات کی تفصیل حسب ذیل ہے۔۔

پہلا سوال:۔      خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟
دوسرا سوال:۔   زندگی کا راز کیا ہے؟
تیسرا سوال:۔    سلطنت کیا چیز ہے؟
چوتھا سوال:۔    سرمایہ اور محنت میں جھگڑے کی وجہ کیا ہے؟
پانچواں سوال:۔ دنیائے اسلام کی زبوں حالی کی وجہ کیا ہے؟

اقبال کا انداز نظر بالکل انسانی او ر آفاقی تھا۔ وہ سماجی انصاف کی علم برداری کرنا اپنا فرض تصور کرتے تھے۔اسی طرح کمزوروں ، مظلوموں اور محروموں کی حمایت اپنا فرض جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ملت دوستی کو ”ایشیاءکا خرقہ دیرینہ‘ ‘سے وابستہ کر دیا ہے یعنی وہ اپنے ملی موقف میں ایک آفاقی نقطہ نظر سے پورے مشرق کو اس لئے شامل کرتے ہیں کہ اس کے خرقہ دیرینہ کو بہت ہی جابرانہ اور ظالمانہ انداز میں چاک کرکے اس کی قیمت پر مغربی اقوام نو دولت ”نوجواں“ پیرا پو ش ہو رہے ہیں۔

یہاں اقبال کی نظر انتہائی وسیع ہو جاتی ہے ۔ وہ دنیائے اسلام کو عالم مشرق کا مترادف قرار دیتے ہیں کہ ملت اسلامیہ مشرق کی نمائندگی کرتی ہوئی ایک خطرناک امتحان میں پڑ گئی ہے۔ بادشاہت و ملوکیت سے اقبال کو نفرت ہے ۔ اقبال کے خیال میں اگرچہ سکندر مر گیا ہے۔ اُس کو دوام نہیں ملا مگر فطرت اسکندری ابھی قائم ہے ۔ حکمرا ن طبقہ ابھی تک دادِ عیش دے رہا ہے۔

گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائو  نوش

دوسری طرف مسلمان ، مسلمان کا دشمن ہو گیا ہے اور ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو“ ، کے سنہرے اصول کو چھوڑ کر ذاتی غرض کی خاطر ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے۔ یہاں اقبا ل نے شریف مکہ کے حوالے سے عربوں کی ترکی سے غداری کو حضور کے دین کو بیچنے کے مترادف قرار دیا ہے،

بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

اور ایک طرف طاغوتی قوتیں ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ یہ قوتیں مسلمانوں کی قوت برداشت کا امتحان لے رہی ہیں۔

آگ ہے ، اولاد ابراہیم ہے ، نمرود ہے
کیا کسی کو کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

تیسرے بند میں خضر پہلے سوال کا جواب دیتے ہیں ۔ اقبال فطرتاً صحرائیت پسند او ر بدویت پسند ہے۔ اقبال کے نزدیک جو افراد او ر قومیں مسلسل جدوجہد کرتی ہیں وہ دوام پاتی ہیں ۔ جہاں و ہ تھک کر بیٹھ جاتی ہیں موت اُن کو دبوچ لیتی ہے۔اور صحرا نوردی مسلسل حرکت کا استعارہ ہے۔ جو اس حقیقت کو روشن کرتی ہے کہ قدرت کے کارخانے میں سکون محال ہے۔ دنیا میں ہر لمحہ حرکت و تغیر کا تماشا جارہی ہے اور اس تماشے کے کسی منظر کو قیام نہیں ہے ۔ خضر اپنی مسلسل دوڑ دھوپ اور حرکت و عمل کو اصل زندگی بتاتا ہے۔لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ صحرا سے اقبال کو اتنی انسیت کیوں ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا روحانی مرکز اور اصل مولد و منشا صحرائے عرب ہے۔ اسی بدولت سادہ زندگی کی وجہ سے مسلمان تما م دنیا پر چھا گئے ۔ اُن میں فاتحانہ اخلاق پیداہوئے۔ صحرائیت میں تکلف و تصنع کا کوئی گزر نہیں۔ صحرا نشین آدمی میں بلا کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ ایک متمدن انسان جوش اور ولولے سے عاری ہوتا ہے ۔ صحرا نشین کی ضروریات زندگی بھی حد درجہ محدود ہوتی ہیں۔

فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد  کہستانی

اگلے دو بندوں میں زندگی کے متعلق بحث کی گئی ہے۔ بقول اسلوب احمد انصاری۔۔

زندگی اقبال کے نزدیک مترادف ہے ایک ایسے مظہر کے جس کی وسعتوں اور گہرائیوں کو ادراک کی گرفت میں آسانی سے نہیں لایا جا سکتا۔

اقبال انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی سود و زیاں ، نفع و نقصان کی سوچ سے بلند تر چیز ہے۔ اس میں کبھی تواعلیٰ مقصد کے لئے جان قربان کردی جاتی ہے، جس طرح حضرت امام حسین نے کربلا میں اور حضرت اسماعیل نے خدا کے حکم پر اپنی جان ِ عزیز کو قربانی کے لئے پیش کیا اور کبھی اعلیٰ مقاصد کی خاطر ہجرت کرکے جان بچائی جاتی ہے۔

برتر از اندیشہء سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی!

انسان کو چاہیے کہ وہ آج اور کل ، ہفتوں ، مہینوں اور سالوں کے حسا ب سے زندگی کو نہ ناپے۔ کیونکہ جاوداں ، پیہم دواں ، ہر دم جواں ہے زندگی۔ انسان ایک ارتقاءپذیر اکائی ہے ۔ اس میں تجدید خودی کی قوت پوشیدہ ہے۔ اسی لئے اس کا نقش مٹ مٹ کر اُبھرتا رہتا ہے۔ زندگی ہر لحظہ نئی قبا زیب تن کر لیتی ہے اور اسی تحریک میں سر آدم پنہاں ہے۔ سرِ آدم قوت تسخیر اور تعمیر کائنات ہے۔ انسان کوچاہیے کہ اپنی خدادا د صلاحیتوں سے بھر پور کام لے۔ کیونکہ اسی لئے تو انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ گو انسان کی تخلیق ایک مشتِ خاک کی سی ہے۔ لیکن قوت کے بدولت انسان اشرف المخلوقات ہے۔

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ،  ضمیر کن فکاں ہے زندگی!

زندگی اور آزادی کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ انسان میں بے شک قوت کے خزانے موجود ہیں ۔ مگر اس کے اظہار کے لئے آزادی اولین شرط ہے۔ کیونکہ غلامی انسان کی قوت عمل کو شل کر دیتی ہے اور نمو کے سارے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں ۔ غلامی کے دور میں زندگی گھٹتے گھٹتے ایک ایسی ندی بن جاتی ہے۔ جس میں پانی کم ہوتا ہے اور معمولی بند باندھنے سے رک جاتی ہے۔ لیکن آزادی کے زمانے میں زندگی ایک ایسے سمندر کا روپ دھار لیتی ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اِ ک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی !

آگے چل کر اقبال انسان کے ذوق ِ عمل اور جدوجہد کو ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں انسان کو سچائی اور صداقت کا دلدادہ ہونا چاہیے ۔ لیکن اس کے لئے پہلے اپنے جسم میں جان پیدا کرنا ضروری ہے۔ یعنی اپنے دل میں ولولہ اور عزم و جوش پیدا کرنا چاہیے۔ جو مرتبے اور عہدے ، مال و دولت انسان کو وراثت میں ملے ہیں ، ان پر انحصار کرنا چھوڑ دے۔ اپنی ہمت ، اپنی محنت اور اپنے خون پسینے کی کمائی سے دولت کمائے اور جاہ و مرتبہ حاصل کرے۔ اسی سے اُن کے دلوں میں وہ حوصلہ اور جرات پیدا ہوگی جو خالد بن ولید ، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم جیسے جری اور دلیر لوگوں میں تھی۔

ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے

چھٹا بند سلطنت سے متعلق ہے اقبال فرماتاہے ؛۔۔

آئو بتائوں تجھ کو رمز آبہ ان لملوک
سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

سلطنت و حکومت کو طاقت کی جادوگری کہنا ایک نہایت بلیغ بات ہے ۔ جادوگری کا لفظ ایک طرف طاقتورحکمرانوں کی ننگی جارحیت اور طاقت کے استعمال پر محیط تو دوسری طرف مدبرانہ مصلحتوں اور رعایا پروری کے ظاہر ی سلوک کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ جب کوئی محکوم نیند سے بیدار ہوتا ہے اور ملوکیت و شہنشاہیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو حکمران اُسے انوکھے ہتھکنڈوں سے پھر سلا دیتا ہے۔ اُسے ایسے سہانے سپنے دکھاتا ہے کہ وہ پھر سے غلامی کا طوق گلے میں پہن لیتا ہے۔

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اس کوحکمراں کی ساحری

پھر اقبال مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل کرنے کے لئے زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے مسلمان تو آزاد پیدا ہوا ہے۔ تیری مثال تو شاہین جیسی ہے تو اپنی آزاد فطرت کو غلامی کی دلدل میں پھنسا کر بدنام نہ کر ۔ اگر ایسا کرے گا تو برہمن سے بھی بڑا کافر ہوگا۔

اقبال کہتا ہے کہ جمہوریت ظالم وجود کا جن ہے جو خوبصورت لباس پہن کر ناچ رہا ہے۔ لوگ اس کے زرق برق لباس کو دیکھ کر اس کو آزادی کی نیلم پری سمجھ لیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ وہی مطلق العنان ملوکیت ہے۔ اقبال مسلمانوں کو خطاب کرکے کہتا ہے کہ اے ناداں انسان تو اس رنگ و بوکے دھوکے کو باغ سمجھ رہا ہے۔ اور اپنی نادانی سے اس پنجرے کو گھونسلہ سمجھ رہا ہے جبکہ حقیقت میں یہ تجھ کو تادیر غلام رکھنے کے ہتھکنڈے ہیں۔۔

اس سراب رنگ و بوکو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

ساتواں اور آٹھواں بند سرمایہ داری سے متعلق ہے ۔ اقبال خضر کی زبانی مزدور کو پیغام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کائنات کے دل سے اٹھنے والی آواز ہے ۔ یہ میرا ذاتی پیغام نہیں بلکہ قدرت اور فطرت کا ازلی پیغام ہے۔ میری آواز میں زمانے کی آواز شامل ہے۔۔

بندہ مزدور کو جاکر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیام کائنات

ان سرمایہ داروں نے تجھ کو غلام رکھنے کے لئے مختلف حربے ایجاد کئے ہیں ۔ تجھے کبھی ذات پات کے چکروں میں الجھایا گیا، کبھی قومیت کا سوال کھڑا کیا ہے۔ کبھی کلیسا کا چکر چلایا ہے ۔ کبھی تہذیب کا جال بچھا کر عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ کبھی کالے گورے کی تمیز رکھی گئی۔ اور اے مزدور تو ان حیلہ بازیوں سے بے خبر رہا اور یہ تجھے طرح طرح کے خواب دکھا کر فریبوں میں الجھا کر تیرا خون چوستے رہے اور افسوس تو انہی کے لئے لڑتا رہا اور ان کے لئے محنت کر تا رہا۔ یہاں اقبال مزدورں کو بیدار کرتا ہے۔

اُٹھ کہ اَب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

آخری تین بند دنیائے اسلام سے متعلق ہیں ، یہاں اقبال نے اپنے جذبات کی تسکین کے لئے راہ نکالی ہے جو اُن کے قلب اور روح کی گہرائیوں میں نہ جانے کتنی مدت سے پوشیدہ تھے۔

مسلمانوں کے تمام اشعار او ر میراث کو عیسائی دنیا نے اپنا لیا۔ مثلاً روایت پرستی کی جگہ تخلیقی انداز کو عیسائی دنیا نے اپنایا۔ اندھی تقلید کی جگہ اجتہاد سے کام لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سرفراز اور کامران ہوگئے اور مسلمان پستی کی عمیق گہرائیوں میں ڈوب گئے ۔ عربوں نے غداری کرکے اپنے پائوں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ جب تک ایک تھے مضبوط تھے ۔جدا ہوئے تو دشمن نے ان کو ایک ایک کرکے ہڑپ کر لیا۔

اور وہ ترک جو کبھی جاہ و حشمت کے مالک تھے ، جو بادشاہ تھے آج وہ پوری دنیا میں رسوا ہوگئے ہیں ۔ خلافت کا تاج ان کے سر سے اتر چکا ہے۔ جس میں کچھ مغرب کی عیاری اور سیاسی چالبازی کا کمال ہے تو بہت زیادہ مسلمانوں کا ترکِ مذہب اور اسلامی شعار سے دور ی کا نتیجہ ہے۔ ایران بھی یورپ کی طرف دیکھ رہا ہے اورمغربی تہذیب بالکل کھوکھلی ہے۔ جو آئندہ نسلوں کے لئے تباہی کا پیغام لائے گی۔ اس لئے اقبال ایرانیوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ان اثرات سے پرہیز کریں۔ اس کے بعد اقبال خودی کا درس دیتے ہیں کہ اپنی حاجتوں کو دوسروں کے سامنے نہ لے جا۔ اپنی خودی کو قربان نہ کر اور دوسروں کے آگے ہاتھ مت پھیلا ۔اگر تو دوسروں کی محتاجی کرے گا تو اس سے تیری خودی کو ٹھیس لگے گی۔ خودی جو آئینے کی مانند نازک ہے ایسی ٹھیس سے چکنا چور ہو جاتی ہے۔

اقبال مشرق کے مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے مصائب و آلام کا حل ملت اسلامیہ کے اتحاد و اتفاق میں مضمر ہے ۔ اگر مسلمان چاہتا ہے کہ ذلت کے گھور اندھیروں سے نکل آئے تو انہیں آپس میں باہمی ربط و ضبط پیدا کرنا ہوگا۔ مگر افسوس ایشیا والے اس نکتے سے اب تک بے خبر ہیں ۔ لہٰذا جب بھی اُن پر یہ راز منکشف ہوگا تو وہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائیں گے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لےکر تابہ خاک کاشغر

اس کے بعد اقبال اپنے کلام میں کہتا ہے کہ میری باتوں کو غور سے سن۔ تجھے اس میں آنے والے وقت کی دھندلی سی تصویر نظر آئے گی ۔ یعنی میری باتوں میں تجھے مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والی بہت سی باتوں کا پتہ چل سکتا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ آسمان کے پاس ایک سے ایک آزمایا ہوا فتنہ موجود ہے۔ اس لئے ان سے ہوشیار رہ۔

فنی جائزہ:۔

خضرراہ“ فنی لحاظ سے ایک مکمل نظم ہے ۔ اس بارے میں آل احمد سرور لکھتے ہیں،

خضرراہ“ میں اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے۔ یہ وہ بلندی ہے جس میں مستی اندیشہ ہائے افلاکی کے ساتھ زمین کے ہنگاموں کو سہل کرنے کا حیرت انگیز عزم موجود ہے۔

خضرراہ“ کل گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم ترکیب و ہیئت میں ہے۔ اس میں 85 اشعار ہیں اس نظم میں کم و بیش 1400 الفاظ ہیں ۔ یہ بحر رمل مثمن مقصور میں ہے۔ اس کے ارکان یہ ہیں۔         فاعلاتن فاعلاتن   فاعلاتن فاعلن

نظم کے کردار:۔

اس نظم میں دو کردار سامنے آتے ہیں ایک خود شاعر اور دوسرا خضر ، شاعر ایک بے قرار شخص ہے اُس نے اپنے آپ کو ”جویائے اسرارِ ازل“ کہا ہے۔ جو ایک ایسے انسان کو ظاہر کرتا ہے جس کے دل میں سب کچھ جاننے کی خواہش موجزن ہے۔ دوسرا کردار خضر کا ہے۔ خضر کی شخصیت کو اقبال نے اس شعر میں مکمل کر دیا ہے۔

دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک ِ جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند  سحر رنگ شباب

پہلے مصرعے میں اُن کو ”پیکِ جہاں پیما“ کہا گیا اس لئے کہ وہ جہاں گرد مشہور ہیں دوسرے مصرعے میں ” پیری میں مانند سحر رنگ ِ شباب“ کا بیان ملتا ہے۔ اس لئے ان کی طویل عمر کی روایت خاصی مشہور ہے اور جس طرح صبح ، صدیوں سے ایک ہی طرح ہر روز طلوع ہونے کے باوجود تازگی و شادابی کا مظہر ہے۔ جیسے شباب کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح خضر  بھی صدیوں پر محیط طویل عمر کے باوجود جوانوں کی طرح مستعدی سے جہاں گردی کرتے رہتے ہیں،بقول فتح محمد ملک۔۔

اقبال نے خضر کا کردار مشرقی روایات اور داستان کے بجائے براہ راست قرآن سے اخذ کیا۔

ڈرامائی کیفیت:۔

اس نظم میں ڈرامائی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ ڈرامائیت خضر کے کردار کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اس نظم کے پہلے منظر کو اگر دیکھیں تو لگتا ہے کہ ڈرامے کا پہلا سین شروع ہو گیا ہے۔ یہ سین ساحل دریا کا ہے۔ شاعر مضطرب دل کے ساتھ محو نظارہ ہے ۔ اس کے دل میں ایک طوفان مچا ہوا ہے۔ مگر بیرونی ماحول انتہائی پر سکون ہے۔ رات کا سکون پر پھیلائے ہوئے ہے۔ قاری تجسّس کا شکار ہو کر پورے انہماک سے مطالعہ شروع کرتا ہے۔ پر سکون ماحول کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہوا ہے۔ اس لئے قاری بھی کسی طوفان کا منتظر ہے۔ اسی اثنا ءمیں اچانک خضر سٹیج پر آکر مکالمہ شروع کرتا ہے۔

کہہ رہا ہے مجھ سے اے جویائے اسرارِ ازل
چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیر  عالم بے حجاب

پھر مکالمہ شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح کائنات اور بین الاقوامی سیاسیات سے متعلق شاعر کو مکمل اور کافی و شافی جوا ب مل جاتا ہے۔

نظم کا لہجہ:۔

پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے بقول۔۔

بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم و ملائم اور دھیما ہے۔

پہلے بند میں لہجہ انتہائی دھیما اور محتاط ہے۔ اسی طرح پوری نظم میں مجموعی طور پر دھیما پن اور نرمی غالب ہے۔ کہیں کہیں لہجہ پر جوش ہو جاتا ہے۔ مگر اقبال اسے دوبارہ مدہم کر دیتا ہے۔ مثلاً دوسرے بند میں شاعر انتہائی جوش سے کہتا ہے۔         

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین ِ مصطفی
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش

یہاں جوش اور گرمی کا پیدا ہونا قدرتی امر ہے۔ ”صحرا نوردی میں “ لہجہ دھیما ہے۔ ”زندگی“ میں پھر بلند اور قدرے پر جوش ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی شاعر کے نزدیک ”گردش پیہم“ اور پیہم دواں ہر دم جواں“ ہے۔ جس میں انسان کو مختلف آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ مگر اگلے ہی بند میں ۔۔۔

سوئے گردوں نالہ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے

کہہ کر پر جوش ”Tone“ کو مدہم کر دیا ہے۔ یہ اتار چڑھائو اور مدوجزر پوری نظم کا خلاصہ ہے۔ مگر مجموعی تاثر دھیما ہے۔ اختتام ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہوتی ہے۔

رنگ تغزل

تغزل اقبال کے کلام کا خاصا ہے۔”خضر راہ“ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق اور ٹھوس مسائل کو موضوع سخن بنا یا گیا ہے۔ مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شعریت اور تغزل رچا بسا ہے اس لئے غزلوں کے علاوہ ان کے بیشتر نظموں میں تغزل کا رنگ نمایاں ہے۔ خضر راہ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگ تغزل نظر آتا ہے۔

برتر اندیشہ سود وزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم ِ جاں ہے زندگی

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ِ ایاز
دیکھتی ہے حلقہ گردن میں ساز دلبری

تراکیب، تشبہات:۔

اقبال نے خضر راہ میں بھی نادر تراکیب کااستعمال کیا ہے۔ مثلاًقلزم ہستی، شہید جستجو، ضمیر کن فکاں ، شمشیر بے زنہار، ساز دلبری ، شاخ آہو وغیرہ۔

تشبیہ کسی چیز کو کسی خاص وصف کی بناءپر کسی دوسری چیز کی مانند ظاہر کیا جائے اقبال کے ہاں نادر تشبیہات ملتی ہیں۔ بقول عابد علی عابد۔۔۔

اقبال ایسی ایسی خوبصورت تشبیہہں اور استعارے استعمال کرتے ہیں کہ ان دیکھی چیزیں دیکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفلِ شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مستِ خواب

صنائع بدائع کا استعمال:۔

اقبال کے کلام میں صنائع بدائع کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ جو اقبال کی غیر شعوری فنی مہارت کا شاہکار ہے۔

صنعت تلمیح:۔

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفی
خاک و خون میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش

صنعتِ تجنیس:۔

خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا اک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو

صنعت ملمع:۔     

ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں
حق ترا چشمے عطا کر دستِ غافل درنگر

صنعتِ مراعات النظیر:۔

آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے

صنعت تضاد:۔

دیکھتا ہوں کہ وہ پیک  جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانند  سحر رنگ شباب

محاکات:۔

اس نظم میں محاکات یعنی تصویر کشی کا بہترین نمونے ملتے ہیں۔ بقول غلام رسول مہر ۔۔

خضر راہ کا موضوع منظر کشی نہ تھا۔ تاہم جہاں کہیں اتفاقیہ موقع مل گیا ہے وہاں اس کمال کرشمہ فرمائیاں بھی دیدنی ہیں۔

مثلاً پہلا بند جس میں اقبال لفظی تصویر کشی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔۔

شب سکوت افزا، ہوا آسودہ ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب!

جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل ِ شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب

مجموعی جائزہ:۔

نظم کی عظمت کے بارے میں عبادت بریلوی کی رائے ہی کافی ہے۔۔

” خضر راہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں موضوع کی بصیرت ، فنی سلیقہ شعاری سے گلے ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور اسی صورت حال نے اس کو اس سحر سے آشنا کر دیا ہے جو شاعری کی جان اور شعر کا ایمان ہے۔“