Thursday 26 January 2012

میراجی : بدنام لیکن اہم شاعر




بدنام لیکن اہم شاعر


”میراجی


بقول سر سہیل۔۔
میرا جی کو سمجھنے کے لئے انسان کو میراجی بننا پڑتا ہے۔

ترقی پسند تحریک کے زور و شور کے زمانے میں 1939ءمیں حلقہ ارباب ذوق کا قیام عمل میں آیا۔ مجموعی طور پر حلقہ ترقی پسند تحریک کا ردعمل تو نہ تھا۔ لیکن دونوں کے ادبی رویے مختلف ضرور تھے۔ حلقہ کے لوگ عصری شعور رکھتے تھے لیکن وہ ادب میں یک رنگی کے قائل نہ تھے ۔وہ انسان کو اس کی کلیت کے حوالے سے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے۔ اسی طرح ادب کے مطالعے سے بھی وہ کسی مخصوص نقطہ نظر تک محدود نہ تھے۔ حلقہ اربابِ ذوق کے شاعروں کی اصل شناخت ان کی نظم نگاری ہے۔ ان حضرات نے قدیم روایت سے انحراف کرتے ہوئے نظم کے مروجہ تصور میں بھی تبدیلی پیدا کی جو ان کے نظریہ شعر سے پوری طرح ہم آہنگ تھی۔ ۱۹۳۶ءکے آس پاس شعر ی موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ نظم کی ہیت میں بھی تبدیلی واقع ہوئی۔ اس دوران آزاد نظم کی ہیئت کو مقبولیت ملی۔ حلقہ کے شاعروں نے اس ہیئت کو کچھ اس طرح برتا کہ اسے تحریک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ ن۔م راشداور تصدق حسین خالد کو آزاد نظم کا بانی کہا جاتا ہے۔ لیکن آزاد نظم میں ایک بہت ہی مقبول نام ”میراجی “ کابھی ہے۔
میراجی ، جن کا اصل نام محمد ثنا اللہ تھا ۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں ٥٢ مئی ۱۹۱۲ءکو لاہور میں پیداہوئے۔  پہلے ”ساحری“ تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی ”میراسین“ کےیک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر ”میراجی“ تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لئے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔  اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامتیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال ،بڑی بڑی مونچھیں ، گلے میں مالا ، شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں، اوپر کی جب میلی ہوگئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دابے بڑی سڑک پر پھرتا تھااور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔  وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑھتا تھا ۔ اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لئے شعر کہے گا۔ صرف ۳۷ سال کی عمر میں ٣ نومبر 1949ءکو مرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں ”مشرق و مغرب کے نغمے“ ”اس نظم میں “”نگار خانہ“”خیمے کے آس پاس“ شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں ، گیت ہی گیت، پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعر ی کے مجموعے ہیں۔  آئیے میراجی کی شاعری کی فکری اور فنی خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔

مغربی شعراءکا اثر :

میراجی فرانس کے ایک آوارہ شاعر ”چارلس بودلئیر“ سے بہت متاثر تھے۔ بودلیئر دوستوں کو دشمن بنانے میں یدطولیٰ رکھتا تھا ۔ میراجی بھی ان سے کم نہ تھے۔ ”مشرق و مغرب کے نغمے“ میں میراجی نے بودلئیر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس نے کئی نظمیں اپنی ذات کے لئے لکھی ہیں۔ میراجی کی ابتدائی دور کی شاعری اپنی ذات کے لئے ہے۔ بودلیئر کے بارے میں میراجی نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لاشعور کا شاعر تھا وہ نئے احساسات ، نئے لہجے ، نئے انداز بیاں اور نئی زبان کا شاعر تھا۔ یہی کام میراجی نے بھی کیا۔
اس کے علاوہ وہ امریکہ کے تخیل پرست شاعر ”ایڈ گر ایلن پو “ سے بہت زیادہ متاثر ہیں ۔ اُس کی بیوی اُس کے لئے ایک ایسا سایہ بن جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور میراجی کے ہاں بھی ”سایہ “ کی علامت بار بار آتی ہے۔”پو“عورت کے بجائے عورت کے تصور کی پوجا کرتا تھا۔ میراجی کی شاعر ی کے بارے میں نقادوں نے لکھا ہے کہ میراجی کو تصور سے پیار ہے۔ تصور میراجی کا آدرش ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آتا ہے۔

ویشنو مت یا ہندو مت کا اثر :

میراجی کی نظموں میں وشنو مت کے بہت زیادہ اثرات ہیں۔ ویشنو بھگتی تحریک دراصل قدیم ہندوستان کے تہذیبی ابال کی ایک صورت تھی۔ جو براہمنوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں ذات پات کو ختم کرنے کے رجحان ،آریائوں کے خاص مذہبی روایات کے مقابلے میں زمین کی زرخیزی سے متعلق دیوتائوں اور اوتاروں کی تخلیق اور سنسکرت کے مقابلے میں دیس کی اپنی بولیوں کے احیاءمیں ڈھل کر نمودار ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستا ن نے اسے قبول کرلیا۔
یہ تحریک دکن سے شروع ہوئی او ر شمالی ہند میں اس نے خوب ترقی کی۔ راما نند ، کبیر اور تلسی داس نے بھگتی کی اس تحریک کو پروان چڑھایا۔ اس تحریک سے پہلے رام اور سیتا کی پوجا ہوتی تھی۔ لیکن ان لوگوں نے کرشن اور رادھا کی پوجا شروع کی اور اپنی شاعری میں اُسے جگہ دی۔ 
میراجی کی نظموں کے مطالعہ کے سلسلے میں ویشنو بھگتی تحریک کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں۔ ان میں ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھے اور رادھا ایک خوبصورت دوشیزہ تھی۔ ان کی محبت ملن اور سنجوک سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی۔ پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا جسے”مدھر“ کا نام دیا گیا ہے اور جو دراصل مرد اور عورت کی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسرا پہلو ”کالی“ اور ”شو“ سے متعلق ہے اور اس نے جنسی علامتوں کے بارے میں میرا جی کا خوب ساتھ دیا ہے۔ویشنو مت بھگتی تحریک کے تصورات میں جنسی پہلو بڑی شدت کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ اور میراجی کی نظموں میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی دھن دراصل ویشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے۔

جنسی حوالہ :

میراجی کی شاعر ی میں جنسی پہلو وشنو بھگتی تحریک کے ان اثرات کا نتیجہ ہے جو دراصل مرد اور عورت کی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اجاگر کرتا ہے۔ لہذا ان رجحانات کو میراجی کی شاعری میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ”حرامی “ ،”دوسری عورت“، ”دور کنارا“ ، ”ایک نظم“ ، ”عدم کا خلا“ اور ”دور نزدیک“ کے علاوہ کئی نظموں میں جنسی آزادہ روی ، جنسی تعلقات کا موضوع ملتا ہے۔عورت اُن کی مکمل کمزوری نہیں۔ وہ اپنی نظم ”خود نفسی“ میں محرومی سے بچنے کا ایک اور راستہ ”خود لذتی“ کی صورت میں تلاش کر لیتے ہیں۔

جوانی میں ساتھ ہے جو اضطراب
نہیں کوئی اس کا علاج
مگر ایک عورت
کھلے جب نہ مجھ پر وسیلوں کے باب
ملے جب نہ چاہت کا تاج
تو پھر کیا کروں میں

عورت اور مر د کی محبت میں جنسی پہلو کو نمو، ناجائز جنسی تعلقات اور اس کے سراہنے کی روش میراجی کی نظموں میں عام ہے۔ مثلاً میراجی کی نظم”حرامی“ میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیاہے۔ میراجی نے ناجائز محبت کے ضمن میں عام سماجی ردعمل کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے۔

قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے
اس بھید کی تو رکھوالی ہے
اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کر نہ سکی
یہ ہے کوئی دن آئے گا وہ نقش بنانے والی ہے

میں تھکا ماندہ مسافر ہوں چلا جائوں گا
اک گھڑی راہ میں تم مجھ کو بسر کرنے دو۔

تصّور :

بقول ڈاکٹر جمیل جالبی۔۔
میراجی کی شاعری میں چیزیں نہیں بلکہ چیزوں کا تصور ملتا ہے ۔ انہیں عورت سے زیادہ عورت کا تصور عزیز ہے۔ منظر بھی منظر بن کر نہیں بلکہ تصور بن کر ان کی شاعر ی میں آتا ہے۔
میراجی کی بدنام زمانہ نظم ”لب جوئبارے“ میں اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔۔

ایک ہی پل کے لئے بیٹھ کے پھر اُٹھ بیٹھی
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بت ہے
پھر بصارت کو نہ تھی تاب کہ وہ دیکھ سکے 
کیسے تلوار چلی کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لئے چشمے کی مانند بنا

میراجی کو اشیا ءسے زیادہ ان کے تصور عزیز تھے ۔ خود میراسین بھی ایک تصور ہی ہے۔ بہت سے نقاد میراسین کو میراجی کی نظموں کا لاشعوری موڑ قرار دیتے ہیں۔ لیکن میراسین کا وجود میراجی کے ہاں ایک شعوری وجود سے زیادہ کچھ نہیں ۔ تصور سے بھرپور نظمیں ہمیں میراجی کے ہاں ملتی ہیں۔ جن میں ”دکھ دل کا دارو“ ”سنجوک“، ”ایک عورت“ ”اجنبی انجان عورت“، ”لب جوئبارے“ ، ”افتاد“ ، ”محبت“ ، ”دھوکہ“، شامل ہیں۔

سفید بازو گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اُٹھائے
اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں 
مگر انہیں برق ایسی لہریں
سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں

ماضی پرستی :


میراجی ماضی پرست انسان ہیں۔ وہ ٹھوس حقائق سے آنکھیں بند کرکے دیومالائی عہد میں زندہ رہنا چاہتا ہے۔ مگر یہ رائے مکمل طور پر درست بھی نہیں ہے۔ کیونکہ اندھیرے اور اجالے کے تضاد اور تصادم اور احساس ، عام ذہن کے لئے قابل ِ قبول سچائی ہیں، میراجی اس سے گریز نہیں کرتے ۔ میراجی کے ہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں ۔ اس لئے کہ  میراجی ماضی پرست ہونے کے ساتھ ساتھ جدید خیالات ، اور احساسات کابھی خیرمقدم کرتا ہے۔
جہاں میں اور بھی تھے مجھ سے تم سے بڑھ کے کہیں           
جو اجنبی تھے جنہیں اجنبی ہی رہنا تھا

دوری :

میراجی ہر چیز کو دور کی نظر سے دیکھنے کے عادی ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی محبوبہ میرا سین کو بھی اتنی دور سے دیکھا کہ اس کا کوئی واضح نقش اس کی نظم میں نہیں ابھر سکا۔ اُس نے میراسین کو ماضی کی دھندلکوں میں ڈھکیل دیا ۔ اور پھر وہ کہیں رادھا بنی ، کہیں بادل ، کہیں دریا، کہیں ندی۔
میراجی کو دوری ہی میں حسن نظر آتا ہے۔ اس دور ی نے ہجر کے کرب ناک لمحوں کو بھی جنم دیا جو کہ ناقابل برداشت تھے۔ لیکن ایسا خال خال ہی ہوا ہے۔ بیشتر جگہوں پر دوری کے احسا س کو لے کر میراجی نے خوبصورت شعری پیکر تراشے ہیں ۔ جن کی کوئی مثال اردو شاعری میں نہیں نظر آتی۔

ترا دل دھڑکتا رہے گا          
مرا دل دھڑکتا رہے گا         
مگر دور دور          
زمیں پر سہانے سمے آتے جاتے رہیں گے           
یونہی دور دورستارے چمکتے رہیں گے
یونہی دور دور
لیکن محبت
یہ کہہ رہی ہے
ہم دور ہی دور
اور دور ہی دور چلتے رہیں گے

خارجیت :

میراجی کو لوگ داخلیت زدہ شاعر مانتے ہیں۔ لیکن اُن کی پوری شاعری سمندر ، پہاڑ ، نیلا گہرآ سمان، بل کھاتی ندیاں ، تالابوں ، جنگلوں ، چاند سورج اور ستاروں ، کاجل کی لکیر ، پھولوں کی سیج، سرسراتے ملبوس اور بدن کے لہو کی آگ کی شاعری ہے۔ میراجی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس پرداخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔ میراجی پر داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات وہ لوگ لگاتے ہیں جو میراجی کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ورنہ میراجی کے ہاں داخل اور خارج کو جو توازن ملتا ہے وہ اردو شاعروں میں بہت کم ہے۔

یوں سامنے کچھ دور
چپ چاپ کھڑا ہے
آکاش کا پربت
اور چوٹی پہ اُس کی
ہے سوریہ کا مندر

اذیت پسندی :

میراجی چونکہ بھگتی تحریک سے متاثر تھے لہٰذا بھگتی تحریک کا ایک اہم پہلو اذیت کوشی بھی ہے۔ لہٰذا میراجی کی نظموں میں اذیت پسندی کا رجحان بڑا واضح ہے۔ اس اذیت پسندی میں ایک پہلو محبت میں دوری اور مفارقت ہے۔ خود رادھا اور کرشن کی محبت میں لمحہ بھر کے ملاپ کے بعد ایک طویل مفارقت کا وقفہ آتا ہے جو آنے والے ملن کے لمحات کی شدت کو دو چند کر دیتا ہے ۔ میراجی کی نظموں میں دوری اور مفارقت کی اس کیفیت کی بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے۔

ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا
اور کچھ بھی نہیں

ابہام :

جنسیت کے ساتھ ہی ابہام کا مسئلہ جڑاہوا ہے۔ جسے میراجی نے اپنے باغیانہ تصورات کے اظہار کے لئے ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔ میراجی نے خود ایک جگہ لکھا ہے کہ
میری نظموں کا نمایاں پہلو ان کی جنسی حیثیت ہے۔
جنس کے بارے میں یہ بات واضح رہے کہ جنس ابہام کے پردوں میں چھپ کر ہی جمالیاتی سطح کو چھو سکتی ہے ۔ میراجی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت جنس کی بات کرنا مروجہ اخلاقیات کی سطح پر ایک ناپسندیدہ فعل تھا۔ اردو شاعری میں محبوب اس لئے مذکر تھا کہ پردہ نشین محبوب کے پردہ کا پورا خیال رکھا جائے۔ میراجی کے ہاں ابہام کی وجہ مغرب کے شعراءبودلیئر اور ملارمے کی تقلید بھی ہے۔ضمیر علی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
ملارمے کا اثر میراجی کی ادبی شخصیت کا اہم موڑ تھا ۔ ملارمے نے اسے ابہام کی فنی اہمیت سے روشنا س کیا۔
یا د ہے اب بھی مجھ کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اُٹھی تھی   
پڑ رہا تھا اُسی تلوار کا سایہ شائد
جو نکل آئی اک پل میں نہاں خانے سے

علامت نگاری :

جنسی مسائل اگر جوں کے توں بیان کر دیئے جائیں تو یہ اپنی اعلیٰ جمالیاتی قدروں کے ساتھ شعر میں نہیں کھپ سکتے ۔ چونکہ میراجی بیشتر اسی جنسی داشتہ کے گرد گھومتے رہے ہیں ۔ اس لئے علامت کا سہارا اشد ضروری تھا۔ انہیں علامتوں کی زبان آتی تھی بلکہ وہ علامتوں کے ہی شاعر تھے۔
چاند میراجی کی نظموں میں محبت کی علامت ہے۔ رات کی علامت میراجی کے ہاں جنسی جذبہ کی علامت ہے۔ اس کے مقابلے میں دن کی علامت غیر جنسی زندگی کی علامت ہے ۔ یعنی رات کے سائے کے مقابلہ پر دن کا سایہ پیدا ہوتا ہے۔ اسے جنس سے حقیقی تسکین حاصل نہیں ہوتی۔

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی
یا کسی پچھلے جنم کی ہوگی

سمندرکی علامت بھی میراجی کو بہت محبوب ہے۔ اپنی ایک نظم دھوکا میں انہوں نے اسے استعمال کیاہے۔ سمندر غیر شخصی جذبہ ہے۔ جبکہ کنواں وہ جنسی جذبہ ہے جو شخصی ہو کر رہ جائے ۔ نظم کا موضوع ایک ایسی عورت ہے جو خود کو کنواں سمجھتی ہے مگر صحیح جنسی تجربے کے بعد وہ سمندر بن جاتی ہے۔

اتھاہ کائنات کے خیال کو غلط سمجھ رہے ہیں ہم ستاروں کی مثال

اتھا ہ کائنات اک کنواں نہیں یہ بحرہے

میراجی کے ہاں ایک اور علامت جنگل کی ہے۔ جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے ۔ اس کے علاوہ میراجی کے ہاں ساڑھی اور روزن بھی جنسی علامتیں ہیں۔ لیکن میراجی کے ہاں سورج ایک رقیب ہے۔ ”آمد صبح “ میں وہ لکھتا ہے۔

وہ لو سورج بھی اپنی سیج پر اب جاگ اُٹھا ہے
گئی رات اور دن آیا

کردار نگاری :

میراجی اپنی نظموں میں بعض اوقات کرداروں کو تخلیق کرتے ہیں جو کہ ایک ڈرامے یا افسانے کی طرح یہ کردار آگے بڑھتے ہیں اور اس نظم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کرداروں کا اثر نظم پر اول سے آخر تک ہوتا ہے۔ نظموں کے اندر بالکل کہانی کا سا انداز آجاتا ہے۔ ”کلرک کا نغمہ“ اس حوالے سے اس کا نمائندہ نظم ہے ۔

دنیا کے انوکھے رنگ ہیں
جو میرے سامنے رہتا ہے اس گھر میں گھر والی ہے

اور دائیں پہلو میں ایک منزل کا ہے مکاں ، وہ خالی ہے
اور بائیں جانب اک عیاش ہے جس کے ہاں ایک داشتہ ہے
اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں

اسلوب :

ابہام میراجی کی شاعری کی نمایاں خصوصیت ہے اور ان کی انفرادیت کی سب سے بڑی پہچان ہے جو کہ ان کی بے باک عریاں نگاری کے لئے ایک لطیف پردے کا کام کرتاہے۔ اُن کا اصل رنگ انہیں نظموں میں نظر آتی ہے جن میں بیان کی لطیف پیچیدگی ہے۔ لیکن میراجی نے ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جن کا اندازِبیان واضح اور غیر مبہم ہے۔مثال کے طور پر کلرک کا نغمہ۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نظم کا موضوع غیر جنسی ہے۔۔

سب رات میری سپنوں میں گزر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں
پھر صبح کی دیوی آتی ہے
اپنے بستر سے اُٹھتا ہوں منہ دھوتا ہوں
لایا تھا کل جو ڈبل روٹی
اس میں سے آدھی کھائی تھی
باقی جو بچی وہ میرا آ ج کا ناشتہ ہے۔

میراجی کی اکثر نظمیں تصاویر یا مناظر کی حامل ہوتی ہیں۔ ان مناظر کی پیشکش میں میراجی ڈرامے کی تکنیک کا پورا پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جبکہ خود کلامی یا تخاطب یا کسی واقعے کے بیان کے ذریعے ایک تاثر کو ابھارتے ہیں اور یکا یک منظر بدل کر نظم کو ایک نیا موڑ دے دیتے ہیں۔ جو زیادہ تر فلش بیک کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میراجی کی امیجری ،جو ان کے اسلوب کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ، اتنی دلکش ہوتی ہے کہ بے اختیار داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

یہ بستی یہ جنگل یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا یہ پربت
اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت
یہ اجڑے ہوئے مقبر ے اور مرگ مسلسل کی صورت مجاور
یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے
یہ گاڑی سے ٹکراکے مرتا ہوا کوئی اندھا مسافر

میراجی کے ہاں فارسی اور ہندی زدہ اسلوب پایا جاتا ہے۔ اُ ن کے تین اہم اسلوب ہیں جن میں ہندی ، فارسی اور اردو اسلوب شامل ہیں۔ لیکن اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو کلیات میراجی کی ابتدائی نظموں پر ہندی اسلوب غالب ہے۔۔

دل بے چین ہوا رادھا کا کون اسے بہلائے گا؟     
جمنا تٹ کی بات تھی ہونی ، اب تو دیکھا جائے گا
چپکی سہے گی رنگ و رادھا جو بھی سر پر آئے گا       
اودھو شیام پہیلی رہتی دنیا کو سمجھائے گا

میراجی کا ایک اور اسلوب فارسی کاہے۔ جہاں میراجی فلسفیانہ انداز اپناتے ہیں وہاں وہ فارسی سے بہت زیادہ مدد لیتے ہیں۔

میں تجھے جان گیا روح ِ ابد
تو تصور کی تمازت کے سوا کچھ بھی نہیں
چشم ظاہر کے لئے خوف کا سنگیں مرقد
اور مرے دل کی حقیقت کے سوا کچھ بھی نہیں
اور مرے دل میں محبت کے سوا کچھ بھی نہیں

میراجی کی نظموں پر ”اردو سٹائل“ کے بھی بہت سے اثرات پائے جاتے ہیں ”آبگینے کے اس پار ایک شام“ ”دور کنارا“ ”مجھے گھر یاد آتاہے“ یگانگت۔ وغیرہ اسی سٹائل کی نمائندہ نمائندہ نظمیں ہیں۔

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے
فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے
یہ میں کہہ رہا ہوں

مجموعی جائزہ :

جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے۔ میراجی کی حیثیت منفر اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراءمیں شائد ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی ، شغف اور زمین سے ایسے گہرے لگائو کا ثبوت بہم پہنچایا جیسا کی میراجی کے ہاں نظر آتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا۔ اور اسی لئے اس میں زمین کی خوشبو ، حرارت اور رنگ نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت بڑی حد تک اس کے اسی رحجان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم گو شعراءنے میراجی سے بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اس کی علامتوں ، اشاروں، سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیش نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب علم جس نے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے، بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعراءکے ہاں میراجی کے اثرات کی نشان دہی کر سکتا ہے۔ دراصل میراجی نے خاص رجحان کے تحت اردو نظم کو ایک نئے مزاج اور ایک نئے ذائقے سے آشنا کیا ۔ اور نظم کے دھارے کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔


یہ مضمون urduweb.org سے ماخوذ ہے




فیض : حقیقت اور رومان کا سنگم





فیض احمد فیض  :
حقیقت اور رومان کا سنگم


فیض احمدفیض بیسویں صدی کے اُن خوش قسمت شعرا ءمیں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پنا ہ شہرت و مقبولیت اور عظمت و محبت ملی ۔ انہوں نے دار و رسن کا مزہ چکھا اور کوچہ یار کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوئے ۔ وہ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن ہی کے شاگرد تھے انہیں یوسف سلیم چشتی سے پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اقبال نے اسلام کو انقلابی مذہب جانا اور اسلام بذریعہ اسلام کا نعرہ لگایا۔ جبکہ فیض نے کمیونزم کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا۔ دونوں کی شاعر ی میں یہ فرق بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔
فیض نے جب شعور سنبھالا اور شعر کہنے شروع کئے تو اُس وقت رومانیت کی لہر آئی ہوئی تھی ۔ جوش اور احسان دانش جیسے شعراءرومانیت کے تحت تصوراتی جنتوں کی تعمیر میں مگن تھے۔ ادبی روایت کو جگر، اصغر ، حسرت اور داغ نے کندھا دے رکھا تھا۔ نظم نگاری کے بھیس میں اخترالایمان ، ن۔م۔راشد، اور میراجی اپنی انفرادیت کی مرلی بجا رہے تھے۔ فیض نے جب علمی زندگی کا آغاز کیا تو امرتسر میں صاحبزادہ محمود الظفر اور اُن کی اہلیہ رشیدہ جہاں کے زیر اثر مارکسزم کا مطالعہ کیا۔ بعد ازاں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو فیض اُسکے بانی اراکین میں شامل تھے۔ فیض نے ہزاروں سختیوں کو سہنے اور دار و رسن کی منزلوں سے گزرنے کے باوجود نہ تو اپنے نظریات میں لچک پیدا کی اور نہ ہی روگردانی کی۔ اُس وقت جب ترقی پسندوں پر اُن کے گھروں کے دروازے بند اور جیلوں کے دروازے کھل گئے تھے، فیض اس تحریک سے وابستہ رہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فیض وفاداری بشرط استواری کے قائل تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے جو موجودہ استحصالی نظام کو بالکل بدل کر رکھ دے۔ وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو بہت نقصان پہنچا۔ لیکن فیض نے ترقی پسند نظریات کے اظہار کے لئے بھی غزل کا پیرایہ اختیار کیا، اور سیاسی مزاحمتی نظمیں لکھنے کے بجائے غزلیں تحریر کیں۔ کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ سیاسی اور مزاحمتی ادب کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔

رومان اور انقلاب کاسنگم :

بقول ثاقب رزمی،
ایک پختہ کا ر ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے اپنی شاعری کو خطیبانہ اور انقلابی رائے زنی سے بچایا اور اُسے روحانی اور رعنائی تجمل کے پیرایہ میں پیش کیا۔ اس لئے ان کی شاعری دوامی رنگ اختیار کر گئی۔ انہوں نے۔۔۔۔ مضامین کو تغزل کے لبادے میں پیش کیا۔۔۔ ۔۔۔ فیض بیسویں صدی کا ایسا ترقی پسند شاعر ہے جس کی ایک ہتھیلی پر رومانیت کاچراغ فروزاں ہے تو دوسری ہتھیلی پر سماجیت کی مشعل جل رہی ہے اُن کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیر ہے کہ اُسے ہیتی تجربوں کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔"

فیض کا اصل تخلیقی عمل یہ ہے کہ انہوں نے مواد اور ہیئت کی دوری کو ختم کیا۔بقول ڈاکٹر عبدالغنی۔۔
رومان اور انقلاب کی کشمکش کے معاملے میں فیض کا شعور تاملات اور ترددات کی آماجگاہ ہے۔ وہ ہنوز فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان کی صحیح سمت کیا ہے۔ جسم کے دلآ ویز خطوط یا زمانے کے دکھ۔۔۔ وہ بار بار جاناں کو چھوڑ کر دوراں کی طرف بڑھتے ہیں لیکن نہ صرف مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں بلکہ پلٹ بھی پڑتے ہیں پھر بڑھتے ہیں پھر پلٹتے ہیں۔

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض کے ہاں غمِ جاناں اور غم دوراں ایک ہی پیکر میں یکجا ہیں۔ انہوں نے محبت اور انقلاب کے ترانے بیک وقت گنگنائے ہیں۔ فیض کا فنی کمال یہ ہے کہ انہو ں نے کلاسیکیت اور رومانیت کو قالبِ شعر میں ڈھال کر ایک منفرد اُسلوب اور لہجہ تخلیق کیا ہے۔درج ذیل اشعار پر غور کریں۔ فیض نے تشبیہات و استعارات کے ذریعے وطن کو اپنا محبوب قرار دے کر وطن سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے جیسے کوئی اپنے محبوب سے اظہار کر رہا ہو۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیر ے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے

یہ سوال فیض کی زبان پر اس لئے بھی شعر بن کر نمودار ہوا کہ کاشتکار کی محنت کا ثمر جاگیردار کی جھولی میں چلا جاتا ہے اور مزدور کے پسینے کے قطرے دولت کی شکل اختیار کرکے سرمایہ دار کی تجوری کی زینت بنتے ہیں۔
فیض اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ جب رومان و انقلاب ایک شاعر کے فن اور ذات میں ڈھل جاتے ہیں تو ترقی پسند شاعری پیدا ہوتی ہے۔ وہ سستی جذباتیت اور نعرہ بازی کے خلاف ہیں۔ وہ صرف انقلاب کا نعرہ بلند کرکے کشت و خون کو دعوت دیتے نظر نہیں آتے بلکہ وہ نرم اور کومل الفاظ میں ہمیں انقلاب کے راستے سے روشناس کرواتے ہیں ۔ فیض اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”میزان “ میں لکھتے ہیں،
انقلابی شاعر پر حسن و عشق یا مے و جام حرام نہیں ، اور اُس پر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ انقلابی مضامین کے علاوہ دوسرے تجربات اور دوسری وارداتوں کا ذکر نہ کرے۔
فیض پر یہ حقیقت واضح تھی کہ روٹی ، کپڑا ، مکان وغیر ہ کے مطالبات انسان کے جسم سے متعلق ہیں۔ اُسکی روح کی طلب روٹی کپڑے کے بجائے روحانی تسکین کی متلاشی نظر آتی ہے اور جس کی تسکین اُنہیں رومان ہی میں نظر آتی ہے۔ اُن کے ہاں اختر کی سی سطحی رومانیت نہیں ملتی بلکہ بڑی خوبصورت تشبیہات کے ذریعے اپنے محبوب کا ذکر کیا ہے۔

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یا د آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

فیض کو سوشلزم سے وابستگی اور آزادانہ اظہار ِ خیال کی کڑی سزا بھگتنی پڑی اور اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال قیدمیں رہ کر گزارے۔ لیکن فیض کی فکر پر پہرے نہ لگائے جا سکے اور نہ فیض کے نظریات پر پابندی لگائی جا سکی۔ چنانچہ عین گرفتاری کے دوران بھی فیض نے انقلابی خیالات کا اظہار جاری رکھا۔

اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

انقلاب کا یہ تصور کشت و خون سے ہو کر گزرتا ہے۔ زنداں میں فیض کے دل و دماغ پر قیامت گزر گئی۔ جب فیض کو ”غدار وطن“ کا نام دیا گیا اور وطن سے دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس ِ زنداں ، کبھی رسوا سر ِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ، سر گوشہ منبر
کڑکے ہیں بہت اہل ِ حکم ، برسرِ دربار

فیض ایک طرف انقلاب کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت کے گیت الاپتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کی انقلابی روح انہیں انقلاب کا درس دینے پر مجبور کرتی تھی۔ ان کے اشعار میں رومان اور انقلاب کی وجہ سے غنائیت اور شگفتگی کے علاوہ رنگینی کا احسا س ہوتا ہے اور وہ زندگی کی سچی مسرتوں سے لطف اندوز ہونے کے خواہاں ہیں۔ رنگینی حسن اور نزاکت ِ خیال ان کے اشعار میں ہمیں انوکھے اور منفرد انداز میں نظر آتے ہیں،

سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
بکھر گیا جو کبھی رنگ ِ پیرہن سرِ بام
نکھر گئی ہے کبھی صبح ، دوپہر کبھی شام
کہیں جو قامت زیبا پہ سج گئی ہے قبا
چمن سرو،و صنوبر سنور گئے ہیں تمام
بنی بساطِ غز ل جب ڈبو لئے دل نے
تمہارے سایہ رخسار و لب میں ساغر وجام

دوسری طرف فیض اپنے دیس اور اس کے باشندوں کی خستہ حالی ، قوم کی عزت و ناموس کی ارزانی ، لوگوں کی ناداری، جہالت ، بھوک اور غم و اندوہ کو دیکھ کر تڑپتے ہیں مگر پھر بھی ان کی شاعری میں وطن سے محبت کا اظہار ہوتاہے۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

جہاں تک ”دست صبا“ کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص عہد کی عکاسی کرتا ہے۔  یہ فیض کے ایک خاص عہد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دست صبا کی نظموں میں فیض نے حقائق کو غم جاناں بنا کرپیش کیا ہے۔ فیض کے یہاں عشق ایک مسلسل رنگ ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقصد کو بھی اس سے ہم آہنگ کردیاہے۔  دوسرے شعراء، جوش ، اختر شیرانی ، حفیظ جالندھری ، مجاز ، ساحر کے ہاں ہمیں ایک طرف خالص عشقیہ شاعری نظر آتی ہے اور دوسر ی طرف خالص انقلابی شاعری ۔ یہ شعراءجب اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں تو دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ اپنے گرد حسن و کیف و سرور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں ۔ اور جب اس ماحول سے نکل کر تلخ حقیتوں کی جانب رجوع کرتے ہیں تو پھر صاف بغاوت ، نقلاب اور رجز کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر ان کے لبوں پر نہیں آتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان شعراءکے ہاں عشق اور انقلاب دو متضاد عناصر ہیں ۔شاعر جب ایک کا دامن پکڑتا ہے تو دوسرے کو بھول جاتاہے۔ مگر فیض کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر چلتے ہیں اور جب ایک پر نظر پڑتی ہے تو دوسرا خود بخود نظر آجاتا ہے۔ فیض کا یہی انداز ان کو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتا ہے۔

چلے ہیں جان و ایماں آزمانے آج دل والے
وہ لائیں لشکر و اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گے
وہ آئیں تو سر مقتل ، تماشا ہم بھی دیکھیں گے

نہ صرف ”دست صبا“ کی نظموں میں بلکہ فیض کی پوری شاعری میں عشق اور انقلاب دونوں آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اب ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے۔ بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے تفسیر اور تشریح بن گئے ہیں۔ بقول صفد رمیر
حقیقت یہ ہے کہ اس کی شاعری میں محبت اور انقلاب کو باہم مربوط کر دیا گیا ہے اور یہ صفت موجودہ دور میں کسی اور شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی ۔

فیض کے کلام کی فکری و فنی خوبیاں :

درج بالا خوبیاں زیادہ تر ان کے کلام کے مجموعی تاثر کے لحاظ سے لکھی گئیں ہیں اب مزید دیکھیں کہ ان کے کلام کے محاسن کیا کیا ہیں،سب سے پہلے تو فیض کے اپنے مقالے سے اقتباس دیکھتے ہیں جو انہوں نے ” شاعر کی قدریں “ کے عنوان کے تحت لکھا۔
حسن کی تخلیق صرف جمالیاتی فعل ہی نہیں افادی فعل بھی ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جس سے ہماری زندگی میں حسن یا لطافت یا رنگینی پیدا ہو، جس کا حسن ہماری انسانیت میں اضافہ کرے جس سے تذکیہ نفس ہو، جو ہماری روح کو پر ترنم کرے جس کی لو سے ہمارے دماغ کو روشنی اور جلا حاصل ہو، صرف حسین ہی نہیں مفید بھی ہے۔ اس وجہ سے جملہ غنائیہ ادب بلکہ تمام اچھا آرٹ ہمارے لئے قابل ِ قدر ہے۔

اس اقتباس سے ان کی طبعی اور ذہنی فکری صلاحیت کے علاوہ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو حسین بنا نا چاہتے ہیں،

رومانیت :

فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں ۔ ان کی اُفتاد ِ طبع رومانی ہے ان کے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے ان کے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضاءچھائی رہتی ہے وہ تصورِ جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں،

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی و رخسار و ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے

اور دیکھیں کہ وہ محبوب کے جمال کو دیکھ کر کیا محسوس کرتے ہیں،

ترا جمال نگاہوں میں لے کے اُٹھاہوں
نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہین کی سی
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری سحر میں مہک ہے تیرے بدن کی سی

نیم وا آنکھوں میں کاجل کی لکیر فیض کےحسن پرست دل پر بڑا گہرا وار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

آج پھر حسن دلآرا  کی وہی دھج ہوئی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا اُبھار
صندلیں ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر

ان کی رومانیت حقیقت سے بالکل متجاوز نہیں ہوتی۔ وہ حسن پرست بھی خاص حد تک ہیں جس حد تک انہیں انقلابی کہا جا سکتا ہے۔

حسن ادا اور ندرت ِ بیان :

فیض ندرت بیان سے قاری کواپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ ان کے کلام کا جتنا زیادہ مطالعہ کیا جائے نئے نئے خیالات و تصورات و ا ہوتے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں ندرت بیاں اور حسن ادا کی دلکش مثالیں پائی جاتی ہیں،

ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے
۰۰۰
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
۰۰۰
وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم میرا محبوب ِ نظر تو دیکھو

جذبات کی ترجمانی :     
  
شاعری میں جذبات کی ترجمانی کے لئے صدق و خلوص انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔ صرف احساسات ، محسوسات اور جذبات کے بیان کا نام شاعری نہیں ہوا کرتا ۔ فیض کے یہاں پرخلوص جذبہ، صداقت اور اُسلوب ِ اظہار پر کامل قدرت ہمیں بھر پور انداز میں ملتے ہیں۔ صرف دو شعر دیکھیں کیا خوب ہیں،

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جواب بھی تیرے گلی سے گزرنے لگتے ہیں

عشقیہ شاعری :   

فیض کی شاعری حقیقی جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں عشق و مستی اور چاہت ومحبت کا بھی کثرت سے ذکر ملتا ہے۔ ان کی شاعری محبت کا ایک دل آویز نمونہ ہے۔ اس اظہار میں چاند کی چاندنی کی سی ٹھنڈک اور سکون ، باد نسیم سی نازک خرامی کے علاوہ محبت کا لوچ اور رس ہمیں دلکش پیرایے میں نظر آتا ہے۔

اس قدر پیا ر سے ، اے جان جہاں ، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے ، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن ، آبھی گئی وصل کی رات

وطن پرستی :  

فیض کو اپنی مٹی سے پیا ر ہے ۔ اس مٹی کو وہ محبوبہ کی طرح چاہتے ہیں ۔ محبوبہ اور وطن میں وہ فرق نہیں کرتے ۔ بقول ڈاکٹر سلام سندیلوی،
دراصل فیض کو اپنے وطن سے بے حد محبت ہے۔ وہ اپنے وطن سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح کوئی مرد کسی عورت سے کرتاہے۔"

اپنی مشہور نظم ”دو عشق میں وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں۔۔

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دل زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صباکو
ڈالی ہیں کبھی گردن مہتاب میں باہیں

لیکن وہ ساتھ یہ کہتے ہیں۔۔

چاہا اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہیں یونہی شوق نے آسائش منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

لیلائے وطن سے محبت فیض کی نظموں کا ایک مستقل موضوع ہے۔ وہ جابجا اپنے محبوب دیس اور اس کے باسیوں کی خستہ حالی، قوم کی عزت و ناموس کی ارزانی، لوگوں کی ناداری ، جہالت ، بھوک اور غم کو دیکھ دیکھ کر بے طرح تڑپ اُٹھتے ہیں۔۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے

فیض کو اپنے وطن سے بے پناہ محبت ہے۔ جیل کی زندگی نے اس محبت کو اور بھی جلا بخشی ۔ جیل ،جہاں انسان سے اس کی مرضی چھین لی جاتی ہے، فیض کے لئے سوہان روح تھی۔ وہ جیل کی اندھیری کوٹھڑی میں وطن کاتصور کچھ اس طرح سے کرتے ہیں۔

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل نے سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

آزادی سے پہلے فیض نے بھی آزادی کے خواب دیکھے تھے اور اپنے تصور میں وطن کی صورت میں ایک جنت آباد تھی۔ مگر جب آزادی کی صبح طلوع ہوئی تو تمام حالات یکسر تبدیل ہو چکے تھے ۔ فیض نے اسے ”شب گزیدہ سحر“ اور ”داغ داغ اجالا“ سے تعبیر کیاہے۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

مگر اس کے باوجود فیض مایوس ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ ابنائے وطن کو جدوجہد جاری رکھنے اور آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ۔

چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اسلوب :

دراصل فیض کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ہی وہ جادو ہے جو قاری کو اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہر بار ایک نئے اندا ز میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ فیض کے اسلوب کا ایک خاص وصف ہے کہ جدید ذہن اس کو جدید حوالے سے لیتے ہیں اور قدیم ذہن اس میں کلاسیکی رکھ رکھائو اور شیرینی تلاش کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض بیک وقت ، ماضی ، حالی اور مستقبل تینوں زمانوں پر محیط نظر آتا ہے۔ یہ ان کے اسلوب کا خاصا ہے۔بقول فضیل جعفری۔۔
فیض کی شاعری کو عظیم اور اس درجہ مقبول بنانے میں ان کے منفرد اسلوب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔

ساد ہ زبان :   

فیض کی زبان سادہ اور لفاظی و مبالغہ سے مبرا  ہے۔ یہ اہم خصوصیت ہے جو انھیں ہم عصر شعراءمیں ممتاز کرتی ہے۔ ن۔م۔ راشد بلا تکلف فارسی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ۔ جوش و مجاز بھی عربی فارسی کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن فیض جو بات کہتا ہے سیدھے سادے الفاظ میں کہتا ہے۔ اور اس سادگی میں بلا کا درد ، تاثیر ، متوازن نشتریت اور سنجیدہ جذبات سمو دیتا ہے کہ وہ شان و شوکت جو فارسی الفاظ کا حصہ ہے اس کی شاعری میں پیدا ہو جاتی ہے۔

گر آج تجھ سے جد ا ہیں توکل باہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گرآج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

تغزل :

فیض کی شاعری کی اصل خوبی ان کا وہ پیرایہ اظہار ہے جس میں تغزل کا رنگ و آہنگ تہہ نشین ہوتا ہے۔ یہی طرز بیان ان کی شاعری کا امیتازی وصف ہے ۔ تعبیرات کی ندرت اور تشبیہوں کی جدت اس کے اہم اجزا ہیں ۔ ان کی نظموں میں ایسے ٹکڑے جن میں اجزاءسلیقے کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ واقعتا بے مثال ہیں ۔بیان کی شگفتگی ایسے اجزا ءمیں درجہ کمال پرنظر آتی ہے اور پڑھنے والا کچھ دیر کے لئے  کھو سا جاتا ہے۔

اس قدر پیار سے اے جا نِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آبھی گئی وصل کی رات

خود کلامی :

فیض کی اکثر نظمیں خود کلامی کی مثالیں ہیں ۔ اس صنف میں شاعر خود سے باتیں کرتا ہے۔ طرح طرح کے تصورات و خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں ۔ بیچ میں کوئی دوسرا شخص مداخلت نہیں کرتا ۔ اس کا واحد حاضر یا جمع حاضر کوئی نہ کوئی مخاطب ضرورہوتا ہے۔ یہ صنف ِ شاعری انگریزی میں بہت مقبول ہے اور اردو ادب میں نیا اضافہ ۔ فیض کی چند نظمیں اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں ۔ کچھ اور جدید شعراءنے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن فیض زیادہ کامیاب اور قابل تحسین نظر آتاہے۔

رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا ”جاگ سحرآئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب تراحصہ تھی
جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے

تشبیہات و استعارات :

فیض کے طرز کلام کا دھیما پن ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے خیال اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے استعاروں کی جدت اور تشبیہوں کی ندرت کا سہارا لیتا ہے۔ انھوں نے ہاتھ کو بطور استعارہ بہت ہی خوبصور ت طریقے سے استعمال کیا ہے۔ مثلاً

یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک، اس خوں میں حرارت ہے جب تک
اس دل میں صداقت ہے جب تک، اس نطق میں طاقت ہے جب تک
۰۰۰
تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کا تھا جس نے آہ نہ کی

فیض تشبیہ کا استعمال بہت عمدہ طریقے سے کرتے ہیں۔۔

رات یوں دل میں تیر ی کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

اُن کے اسلوب کے متعلق فضیل جعفری فرماتے ہیں۔۔
فیض کے اسلوب کا کمال یہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات اور گہرے سے گہر ے تجربہ کو اس سیدھے سادے لیکن لطیف انداز میں قاری کو منتقل کرتے ہیں کہ نہ فنی نفاست میں کوئی کمی آنے پاتی ہے نہ تاثر میں۔

مجموعی جائزہ :

ہر دور میں ایک نہ ایک آواز ایسی ضرور ابھرتی ہے جسے کوئی بھی صاحب دل اور اہل شعور نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ جس کا تاثر وسیع بھی ہوتا ہے اور دور رس بھی۔ آ ج کے دور میں یہ آواز فیض کی آواز ہے۔ جہاں جہاں مظلوم انسانیت کے دکھوں کا شعور موجود ہے ۔ یہ آواز اپنے گہرے تاثر کی وجہ سے پہنچانی جاتی ہے۔ بلاشبہ اردو شاعری کا عہد نو فیض کا عہد ہے او ر فیض سے شناسائی کے بعد رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ بقول پروفیسر جمیل احمد
طبقاتی کشمکش کے خلاف ، انقلاب اور جدوجہد تیسری دنیا کے استحصال ذد ہ عوام ، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق چند ایسے موضوعات ہیں جن پر فیض نے بہت لکھا ہے اور اس انداز سے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کھوکھلی نعر ے بازی بننے کی بجائے با معنی اور جامعیت کی تمام تر وسعتیں اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔

احمد ندیم قاسمی ان کے متعلق لکھتے ہیں۔۔
دراصل فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلاءمیں شاعری کرتے ہیں، اپنے ماحول سے کٹ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اپنی روحوں پر اشعار ناز ل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ فیض نے تو آج کی دنیا کے جملہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی محرکات کے شعور میں شعر کہے ہیں۔

یہ مضمون urduweb.org سے ماخوذ ہے۔